معروف کالم نگار قیوم نظامی لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان جیسے سرمایہ دارانہ‘ جاگیردارانہ سماج میں اگر ایک یتیم بچہ خاندانی سپورٹ کے بغیر ایک معاون سے چیف جسٹس پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر پاکستان کے اعلٰی منصب تک پہنچ جائے تو اس کی خداداد صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کتاب کے مطالعہ کے بعد اس آفاقی اصول پر یقین کامل ہوجاتا ہے کہ ’’نیت‘ حرکت اور برکت‘‘ کامیابی کی ضمانت ہے۔وکالت ایک آرٹ ہے۔ قائداعظم نے یہ آرٹ استعمال کرکے مسلمانوں کے لئے آزاد وطن حاصل کرلیا۔ اگر محترم ارشاد حسن خان ایک کامیاب وکیل نہ ہوتے تو ان کے لئے پاکستان کا چیف جسٹس بننا ممکن نہ ہوتا۔ارشاد نامہ پڑھ کر یہ شعر صادق آتا ہے کہ
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
حفیظ الرحمان قریشی لکھتے ہیں کہ ’’ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کا نتیجہ عین توقع کے مطابق نکلا۔ انتخابات ہوئے‘ یوں جمہوریت اور پارلیمنٹ اڑھائی سال کے اندر اندر بحال ہوگئی۔ فوج کی واپسی اور جمہوریت کی بحالی کے لئے قوم کو نہ تو کسی لیڈر کو پھانسی چڑھتے دیکھنا پڑا‘ نہ اے آر ڈی کی طرز پر بحالی جمہوریت کی تحریک چلانا پڑی اور نہ سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں پر کوڑے برسے۔ ارشاد نامہ کا ایک بڑا حصہ فیصلے پر معذرت کے لئے نہیں بلکہ حقائق کی نقاب کشائی کے لئے وقف ہے۔‘‘ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں کہ ’’ان کا یہ اعتماد و جرات اور انداز دیکھا جائے تو پرنسپل کی جانب سے ان کو دیئے گئے تعریفی خط کا ایک ایک لفظ سچ ثابت ہوتا نظر آتا ہے۔ انہوں نے مغرب سے پہلے ملازمت حاصل کرنے کا عزم سچ کر دکھایا۔فیروز سنز ان کی کامیابی کی سیڑھیوں کا پہلا اسٹیپ تھا۔ اس کے بعد اﷲ تعالٰی نے انہیں اس طرح کامیابیاں عطا کیں گویا لوح و قلم ان کے ہاتھ آگیا ہو اور وہ اپنی تقدیر لکھتے چلے گئے ہوں۔‘‘
عاصم ڈوگر لکھتے ہیں کہ ’’ارشاد حسن خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے نہایت اہم تاریخی ادوار کے امین ہیں۔ تقسیم کے وقت پاکستان ہجرت‘ پاکستان کا ابتدائی انتظامی ڈھانچہ‘ پاک بھارت جنگیں‘ سیاسی رہنماؤں کے عروج و زوال‘ جنرل ایوب خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے مارشل لاء اور اس کے بعد جمہوری ادوار اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ ارشاد حسن خان نے اپنی قسمت خود اپنی محنت سے لکھی تو یہ غلط نہ ہوگا۔ ارشاد نامہ میں وہ کہتے ہیں میں نے بچپن سے ہی اپنے بارے میں بڑی رائے قائم کرلی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ناممکن کا لفظ ارشاد حسن خان کے لئے کوئی وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ارشاد حسن خان نے اپنی خامیوں اور کمزوروں کو چھپانے کی بجئے کھل کر ان کا اظہار بھی کیا۔ جہاں حالات کا دھارا اپنی طرف موڑنے کے لئے چھوٹی موٹی چالاکیوں اور ہیرا پھیریوں سے کام لینا پڑا‘ سو لیا۔ اس میں بظاہر کسی کا نقصان تو نہیںہوا البتہ اپنی ذہانت کا اظہار ضرور کیا ہے۔‘‘
عمار چوہدری لکھتے ہیں ’’میں جب سوچتا ہوں تو میرا یقین اس اعلٰی ترین ذات پر گہرا ہوجاتا ہے جس نے بے وسیلہ بچے کو اپنی رحمت کا وسیلہ دے کر ہمیشہ سرخرو کیا۔ اس نے مجھے خواب دکھلا کر پختہ کیا کہ مجھے موت کی گہری کھائی سے بچنا ہے تو تعلیم کا سہارا حاصل کرنا ہوگا اور یہ پیغام سب کے لئے ہے کہ اپنے یقین کو پختہ کریں اور اپنے رب کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں‘‘۔(جاری ہے)
مغل بادشاہ بابر کی ایک شاندار حکایت بتاتے ہیں کہ بادشاہ کے دربار میں ایک شخص کو لایا گیا جو سوئی کو زمین میں گاڑھ کر ڈیڑھ دو گز کے فاصلے سے دوسری سوئی پھینکتا جو پہلی سوئی کے ناکے میں جاکر پھنستی۔ بادشاہ اس کا فن دیکھ کر بڑا متاثر ہوا اور اسے پہلے انعام و اکرام دیا اور پھر کوڑے لگوائے۔ بادشاہ بولا اتنی مہارت تم نے پیدا کرلی ہے اس کا تمہیں انعام دیا گیا لیکن اتنی فضول چیز میں مہارت پیدا کی جس کا عملی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ دوسرے لوگ ایسی فضول اور بیکار چیزوں میں مہارت حاصل کرنے میں اپنا وقت ضائع کریں اسی لئے تمہیں کوڑے مارے گئے ہیں‘‘۔ یہ حکایت پڑھ کر میں نے سوچا آج کل تو اس سے بھی زیادہ عجیب مقابلے چل رہے ہیں۔ ماتھے سے ٹکریں مار کر چند منٹ میں میز پرپڑے سینکڑوں اخروٹ توڑنے ‘ سب سے بڑا کیک بنانے‘ مونچھوں سے ٹریکٹر اٹھانے حتٰی کہ لمبی لمبی ڈینگیں مارنے کے مقابلے! کیا بہتر نہیں کہ اس کی بجائے علم کے حصول اور شخصیت سازی کی طرف توجہ دی جائے تاکہ ہماری نئی نسل سے جسٹس ارشاد حسن خان جیسے لوگ نکلیں جن کا آئیڈیل ڈورے مون یا موٹو پتلو نہیں بلکہ نبی اکرمﷺ‘ قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسی شخصیات تھیں جن سے محبت کے باعث ان کا یقین‘ اعتماد اور ایمان مضبوط ہوا اور وہ کامیابی کی منازل طے کرتے چلے گئے‘‘۔
ارشاد بھٹی لکھتے ہیں ’’چنددن لاہور میں بھائی کی فرنیچر کی دکان میں بیٹھے‘ مگر کچھ بننا چاہتے تھے‘ لہٰذا بھائی کی دکان پر جانا بند کرکے مسلم ماڈل اسکول میں داخلہ لے لیا۔ معاشی حالات خراب‘ اسکول چھوڑنے کی نوبت آگئی لیکن ڈاکٹر محبوب الحق کے والد عبدالعزیز شیخ نے فیس معاف کی‘ مفت کتابیں‘ کاپیاں‘ یونیفارم دیا تو تعلیم جاری رکھ پائے۔ بل نہ دینے کی وجہ سے گھر کی بجلی کٹی تو سرکاری روشنی میںپڑھائی کی۔ کھانے پینے کا مسئلہ ہوا تو چھوٹی عمر میں ہی بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کردی۔ یہی نہیں ٹیوشن کے ساتھ ساتھ لاہور مال روڈ پر مصنوعی ٹانگیں و دیگر اعضاء لگانے والی دکان پر ملازمت کرلیا۔ اسی دوران ریڈیو پاکستان پر بچوں کے پروگرام بھی کئے۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ پڑھ کر پتہ چلا کہ جونیجو پارلیمنٹ نے آٹھویں ترمیم منظور کی‘ مطلب 58ٹو بی کے تحت صدر مملکت کو حکومت گھر بھجوانے کا اختیار دیا۔ یہی کتاب پڑھ کر پتہ چلا کہ اچھے موڈ میں جالندھری پنجابی بولنے والے ضیاء الحق کو جب کسی پر غصہ آتا تو وہ زوردار قہقہہ مارتے اور بات دل میں رکھ لیتے۔ اگر انہیں فون کرکے ناراضی کا اظہار کرنا ہوتا تو پہلے السلام علیکم کہتے‘ مزاج پوچھتے‘پھر کلاس لیتے۔ سیکریٹریوں کو رخصت کرنے کارپورچ تک آتے۔ وہ شریف الدین پیرزادہ کو استاد کہتے۔ اسی کتاب کو پڑھ کر معلوم ہوا کہ بظاہر دھان پان سے نرم لہجے والے محمد خان جونیجو ایسے دلبر نکلے کہ ’’مارشل لاء اور پارلیمنٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ والا بیان دے دیا۔ آپ جسٹس ارشاد حسن خان کے پرویز مشرف کو 3سال دینے پر اعتراض کرسکتے ہیں‘ جسٹس سعید الزماں صدیقی کے انکار کے بعد ان کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے پراعتراض کرسکتے ہیں‘ ان کی منطق کو ردکرسکتے ہیں کہ میں نے پی سی او کے تحت حلف آزاد عدلیہ‘ فوج کو بیرکوں میں بھجوانے اور جمہوریت بچانے کے لئے لیا مگر یہ کتاب پڑھتے ہوئے آپ قدم قدم پرفضل خدا اور ایک یتیم سائیکل سوار کی محنت‘ قابلیت کے قائل ہوجائیں گے۔‘‘
(جاری ہے)