مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا نگراں وزیر اعظم کے لیے ڈاکٹر مالک پر اتفاق ہو گیا تھا۔ خواجہ آصف

نجانے کیوں لگتا ہے خواجہ آصف کو شُرلیاں چھوڑنے میں مزہ آتا ہے یا جان بوجھ کر ایسی بات کرتے ہیں جس سے کسی نئی بحث کا آغاز ہوتا ہے۔ اب نگران وزیر اعظم کے حوالے سے دیکھ لیں جب انوار الحق کاکڑ نے حلف اٹھا لیا ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں ’’پی پی پی اور مسلم لیگ (نون) نے ڈاکٹر عبدالمالک پر نگراں وزیر اعظم کے لیے اتفاق کر لیا تھا۔‘‘ صاف بات ہے اگر ایسا ہے تو یہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ محسوس ہوتا ہے وہ یعنی خواجہ آصف پارٹی بیانیہ کے مقابلے میں اکثر اپنا مخصوص بیانیہ گھڑتے ہیں اور پارٹی ان کو نواز شریف یا مریم نواز سے قربت کی وجہ سے خاموش رہتی ہے۔ ورنہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کو دیکھ لیں ان کے خورشید شاہ نے نگراں وزیر اعظم کے حوالے سے اپنا من پسند اختلافی بیان دیا تھا تو کیا ہوا۔ فوراً پارٹی نے اس پر گرفت کی اور خورشید شاہ کو کہنا پڑا وہ تو میں نے ایویں کہہ دیا تھا میرا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ اب معلوم نہیں خواجہ آصف کے بیان کو بھی مروڑ کہہ کر اس کی شدت کم کرنے کی کوشش کی جائے گی یا پھر سیاسی میدان میں محاذ گرم کرنے کو ترجیح دی جائے گی۔ اس وقت اصل مسئلہ نگران حکومت کو بہرصورت جلد از جلد الیکشن کرانے کے لیے سازگار ماحول میں مدد دینا ہے۔ اگر یہاں بھی سینگ لڑانے والی پالیسی چل پڑی تو پھر یاد رکھیں۔ 2024ء میں الیکشن کا انعقاد ممکن نہ ہو گا۔ کام بنانا مشکل ہوتا ہے جبکہ بگاڑنے میں بہت آسانی رہتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بھی بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انوار الحق کاکڑ بھی بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر مالک سادہ شریف النفس انسان ہیں۔ دیکھتے ہیں نگراں وزیر اعظم کیسے ہیں۔ ویسے بھی انہوں نے کونسا 10 سال یا 5 سال کے لیے رہنا ہے چند ماہ کی تو بات ہے۔ ہاں اگر وقت زیادہ ہوگیا تو ان کے جوہر اور کھلیں گے۔ 
٭٭٭٭
غدار نہیں شوہر کو لے کر واپس بھارت جائونگی۔ انجو 
اب ذرا کوئی خاتون سے یہ تو پوچھے کہ بی بی اگر واپس بھارت ہی جانا تھا وہ بھی اپنے محبوب شوہر کو لے کر تو پھر اپنے شوہر اور 2 بچوں کو روتا چھوڑ کر وہ پاکستان کیوں آئیں تھیں۔ صرف شادی کرنے کے لیے اتنا پاکھنڈ کیوں رچایا ۔ بھارت میں بھی لاکھوں خوبرو مسلم بستے ہیں۔ ہر قوم ہر نسل ہر ذات کے ایک سے بڑھ کر خوبصورت مسلمان آباد ہیں۔ وہاں ہی کسی مسلمان سے اسلام قبول کر کے شادی کر لیتی یہ پاکستان آ کر ایک بھولے بھالے دیہاتی نوجوان کو لبھا کر اب بھارت لے جانے کا سوچنا چہ معنیٰ دارد۔ ویسے بھی بھارت جا کر یہ گل خان کیا محفوظ ہو گا۔ وہاں کے جنونی ہندو انتہا پسند ا س کی تکا بوٹی کریں یا نہ کریں ہڈی پسلی ضرور ایک کر دیں گے۔ انہوں نے نہ کیا تو انجو بی بی کے گھر والے اور سسرال والے کہاں اسے معاف کریں گے۔ ان کے اپنے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود بھی خوفزدہ ہیں اور بھارت والوں کو اپنی حب الوطنی کا یقین دلا رہی ہیں۔ جبھی تو میڈیا سے کہہ رہی ہیں کہ وہ اس کے حوالے سے نرم پالیسی اختیار کریں۔ ہم اس قابل تو نہیں کہ مشورہ دیں مگر یہ ضرور کہیں گے کہ بی بی اگر آپ نے پسند کی شادی کر ہی لی ہے تو اب پاکستان آپ کا گھر ہے یہاں ہی رہیں۔ ویسے بھی بیٹی سے کہا جاتا ہے کہ جہاں ڈولی میں جا رہی ہو وہاں سے اب تمہارا جنازہ ہی نکلے۔ بھارت واپس گئیں تو کیا پتہ جنونی گھر والے اور سسرال والے انجو کی چتا جلانے پر تل جائیں۔ بیچ میں خواہ مخواہ بے چارہ’’گل خان‘‘ بھی مارا جائے گا۔
٭٭٭٭
باسمتی چاول کی برآمدات میں 38.6 فیصد نمایاں اضافہ 
اس میں ہماری حکومتی ٹریڈ پالیسی کا کوئی زیادہ عمل دخل نہیں۔ یہ سب قدرت کی مہربانی کے طفیل ہوا ہے۔ ورنہ برا نہ لگے تو عرض کریں کہ ابھی تک ہم باسمتی چاول کو جو پاکستان کا اپنا برانڈ ہے عالمی سطح پر دنیا بھر کی مارکیٹوں میں میڈ ان پاکستان تسلیم کروانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے۔ بھارت والے اسے اپنے نام سے میڈ ان انڈیا بنا کر فروخت کرتے ہیں جبکہ ان کا اپنا باسمتی گھٹیا کوالٹی کا ہوتا ہے۔ اب قدرتی طور پر بھارت کے چاول کی کوالٹی کی گراوٹ کی وجہ سے عرب اور امریکی ممالک میں اس پر پابندی لگی تو ہمارے بھاگ کھل گئے اور دنیا بھر میں پاکستانی باستمی کی مانگ بڑھ گئی۔ اب اس کے مزے کے دیوانے ہونے والے مستقل اس کے گاہک بن جائیں گے۔ یوں ہمیں عالمی منڈی میں نمایاں جگہ مل جائے گی۔
ان میں حکومت اور کچھ کرے نہ کرے عالمی سطح پر باسمتی کو مکمل پاکستانی برانڈ کے طور پر تسلیم کرائے۔ تاجر بھی کوالٹی پر خصوصی توجہ دیں ورنہ نام بدنام تو ہو گا۔ عالمی منڈی بھی ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ اس وقت قدرت نے ہمیں اچھا موقع دیا ہے۔ اس طرح اگر گلابی نمک یعنی پہاڑی نمک کو جو صرف پاکستان میں نکلتا ہے بڑے پیمانے پر ہے یہاں سے بھارت فروخت کیا جاتا ہے اسے گلابی نمک کو بھی چالاک بھارت میڈ ان انڈیا بنا کر فروخت کر کے لاکھوں ڈالر کماتا ہے۔ اسے بھی مکمل طور پر عالمی منڈی میں پاکستانی نمک بنا کر پیش کرنے کی مہم چلائی جائے۔ دنیا کو بتایا جائے کہ یہ کھیوڑہ پاکستان کا نمک ہے تو پاکستانی نمک عالمی منڈی پر چھا سکتا ہے۔ بھارت کی بجائے یہ نمک پاکستان خود عالمی منڈی میں فروخت کر کے بھاری زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ یوں چاول اور نمک سے ہم بھاری زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔
٭٭٭٭
نواز شریف وسط ستمبر تک واپس آئیں گے۔ ذرائع 
اب بار بار جس طرح ان کے آنے اور نا آنے کی گردان دہرائی جا رہی ہے اس سے لوگ کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ان کے چاہنے والے ان کی آمد کے منتظر ہیں۔ ان کا استقبال پھولوں سے کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اس کے برعکس ان کے مخالفین انہیں آتے ہی داخل زنداں کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ  وطن واپسی ان کے لئے پھولوں کے سیج ہو گی یا انگاروں کا بستر۔ بات تو یہ ہے کہ پہلے وہ آ کر دکھائیں تو سہی۔ جب تک وہ آتے نہیں لوگ یونہی باتیں بناتے رہیں گے۔ آنے والے چند ماہ الیکشن کی تیاری کے ہیں۔ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم چلانے کی سوچ رہے ہیں۔ 
اگر میاں نواز شریف آتے ہیں تو وہ مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم کے روح رواں ہوں گے۔ شہباز شریف پہلے ہی مخالفین کی باتوں کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ اگر مسلم لیگ (نون) الیکشن جیتی تو اگلے وزیر اعظم میاں نواز شریف ہوں گے۔ یہ تب کی بات ہے جب مسلم لیگ (نون) جیت جائے۔ آصف زرداری اپنے سپوت بلاول کو وزیر اعظم بنانے کے سپنے دیکھ رہے ہیں۔ جس کا امکان کم ہی ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس فی الحال کوئی وزیر اعظم کا امیدوار دستیاب نہیں، تحریک استحکام پارٹی میں البتہ دو تین امیدوار دستیاب ہیں۔ دیکھنا ہے اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھتا ہے۔ باقی جماعتیں رونق میلہ ضرور لگا سکتی ہیں سو وہ بھی لگا لیں کیونکہ 
ایک ’’الیکشن‘‘ پہ موقوف ہے گھر کی رونق 
نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی 

ای پیپر دی نیشن