گذشتہ روز کے کالم کو پڑھنے کے بعد معزز قارئین اور کئی دوستوں نے بھی کہا ہے کہ میں انتخابات کی اتنی مخالفت کیوں کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ میں انتخابات کی مخالفت نہیں کرتا لیکن موجودہ حالات میں انتخابات کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ ملک ان حالات میں انتخابات اس کے نتائج اور بعد کے حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ملک میں سیاسی حالات آج بھی کشیدہ ہیں۔ انتخابات کے نتیجے میں کوئی بھی اقتدار میں آتا ہے تو ہارنے والے نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔ یہی ہماری تاریخ اور سیاسی رویے ہیں۔ ایسے حالات میں کسی بھی حکومت کے لیے کام کرنا آسان نہیں ہوتا۔ سیاسی عدم استحکام سے معاشی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور معاشی عدم استحکام کے نتیجے میں نہ تو کاروبار ہوتا ہے نہ اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کے لیے مناسب ماحول بنتا ہے، تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیا چوبیس کروڑ سے زائد لوگوں کے ملک میں ایسے حالات زیادہ دیر تک برقرار رہ سکتے ہیں۔ یقینا نہیں آج دیکھیں مہنگائی کی وجہ سے نچلا طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔ دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ مہنگائی کی اس لہر نے عام آدمی کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ کاروبار کرنے والے تو اشیائ کی قیمتوں میں اضافہ کر کے خسارے سے بچ جاتے ہیں لیکن تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کے باعث یہ طبقہ مشکلات میں گھرا رہتا ہے۔ کاروبار بھی متاثر ہوتا ہے۔ غرضیکہ ہر چیز متاثر ہوتی ہے اس لیے مجھے انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ میرے لیے ملک کا مستقبل زیادہ اہم ہے۔ میری نظر میں چوبیس کروڑ سے زائد انسانوں کا مستقبل زیادہ اہم ہے اس لیے میں انتخابات کے بجائے اس کے التوا کے حق میں ہوں۔ تاکہ کچھ وقت ملک میں سکون رہے اور کچھ ترقیاتی اور تعمیراتی منصوبے ہوں، سرمایہ کاری ہو، لوگوں کا روزگار چلے۔ لوگ پیسے کما سکیں اور ان میں ملک کی محبت اور عزت کا جذبہ بیدار ہو۔
لوگ مشکلات میں ریاست سے مدد کی توقع کرتے ہیں۔ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے لیکن مختلف وقتوں میں حکمرانوں نے ریاست کو جس برے طریقے سے نوچا ہے ریاست کے پاس اپنے لوگوں کی مدد کے لیے کچھ باقی نہیں بچا۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں غریبوں، بے روزگاوں کی مدد نہیں ہو سکتی لیکن اس وقت وہ وسائل نہیں ہیں کہ مشکلات میں گھرے افراد کی مدد ہو سکے۔ حکمرانوں نے نوچ نوچ کر معیشت کو اتنا کمزور اور اداروں کو اتنا نقصان پہنچا دیا ہے کہ اگر کوئی کمزور افراد کی مدد کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ ایسا ہو گا اگر ہم میرٹ پر فیصلے کریں۔ باصلاحیت لوگوں سے کام لیں اور ملک کی خدمت کے جذبے سے کام کریں تو سب کچھ ممکن ہے لیکن فوری طور پر ایسا کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس وقت تکلیف اٹھانا پڑے گی۔ پاکستان کی معیشت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ عالمی اداروں سے معاہدوں اور دوست ممالک کی مدد سے معیشت کو بہتر بنانے کے لیے سخت اور مشکل فیصلے کیے گئے ہیں۔ نگران حکومت ان فیصلوں پر عملدرآمد کی پابند ہے اور انہیں اس سلسلے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ پاکستان قرض کے بجائے تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ انتخابات 2025 تک نہ ہوں کم از کم بھی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو یہ فروری مارچ دو ہزار پچیس تک ہو تاکہ اس وقت تک کمزور معیشت میں بہتری آ سکے۔ ورنہ مہنگائی بڑھتی رہے گی اور عام آدمی پستا رہے گا۔ جیسا کہ ان دنوں مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ زندگی کو بہت متاثر کرے گا لیکن اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔ ماسوائے اس کے کہ ہم توانائی کے متبادل ذرائع پر کام کریں۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے یہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔پیٹرول کی قیمت میں 17 روپے 50 پیسے فی لیٹر جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 20 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔پیٹرول کی نئی قیمت 290 روپے 45 پیسے فی لیٹر جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 293 روپے 40 پیسے فی لیٹر مقرر ہو گئی ہے۔ یہ اضافہ ہر پاکستانی پر نیا بوجھ ہے۔ ایسا مشکل وقت ہے کہ پندرہ پندرہ بیس بیس روپے فی لیٹر اضافہ ہوتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ پچیس تیس روپے کی ایک روٹی مل رہی ہو تو یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی کیا حالت ہو گی۔ کام ملتا نہیں، کہیں کام ہے تو پیسوں کہ بروقت اور بلا تعطل ادائیگی کا مسئلہ درپیش ہے یہ سب مسائل معیشت سکڑنے اور کاروباری سرگرمیوں کے کم ہونے کا ہی تو نتیجہ ہیں۔ اس کے علاوہ تو کوئی اور بات نہیں ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان مشکل حالات میں بھی عام آدمی قربانی دے رہا ہے اور دیتا بھی رہے گا لیکن کیا حالات ٹھیک ہونگے کیا ان قربانیوں کا صلہ ملے گا یا پھر یہ مشکل وقت گذرے گا تو ایک اور مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔
آخر میں صبا اکبر آبادی کا کلام
اس کو بھی ہم سے محبت ہو ضروری تو نہیں
عشق ہی عشق کی قیمت ہو ضروری تو نہیں
ایک دن آپ کی برہم نگہی دیکھ چکے
روز اک تازہ قیامت ہو ضروری تو نہیں
میری شمعوں کو ہواؤں نے بجھایا ہو گا
یہ بھی ان کی ہی شرارت ہو ضروری تو نہیں
اہل دنیا سے مراسم بھی برتنے ہوں گے
ہر نفس صرف عبادت ہو ضروری تو نہیں
دوستی آپ سے لازم ہے مگر اس کے لئے
ساری دنیا سے عداوت ہو ضروری تو نہیں
پرسش حال کو تم آؤ گے اس وقت مجھے
لب ہلانے کی بھی طاقت ہو ضروری تو نہیں
سیکڑوں در ہیں زمانے میں گدائی کے لئے
آپ ہی کا در دولت ہو ضروری تو نہیں
باہمی ربط میں رنجش بھی مزا دیتی ہے
بس محبت ہی محبت ہو ضروری تو نہیں
ظلم کے دور سے اکراہ دلی کافی ہے
ایک خوں ریز بغاوت ہو ضروری تو نہیں
ایک مصرعہ بھی جو زندہ رہے کافی ہے صبا
میرے ہر شعر کی شہرت ہو ضروری تو نہیں