قومی یکجہتی قائم کریں آئی ایم ایف کی ضرورت ختم ہوجائیگی

امیر محمد خان
صاحبو ! پاکستان میں آئی ایم ایف کے زیر سایہ حکومتی اور معاشی زیر اہتمام چلنے والی حکومت کی قسط دوم چونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ معاہدہ کے تحت یہ کہا گیا تھا اتحادی حکومت کو پہلی قسط، اسکے بعد آنے والی بظاہر نگراںحکومت کو دوسری قسط ، اور نگراں حکومت کے جانے کے بعد ( اگر وہ گئی تو ) انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو تیسری قسط ملے گی ۔ اتحادی حکومت کے دوران جی بھر کے پروپیگنڈا ہوا کہ پاکستان ’’ دیوالیہ ‘‘ہونے والا ہے ، اور سابقہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف ، ان کے وزیر خزانہ یہ کہتے رہے کہ دیوالیہ نہیںہونے دینگے ۔ جبکہ ذی شعود لوگ جانتے ہیں کہ غیرملکی طاقتیں جنکی نمائندہ آئی ایم ایف ہے پاکستان جیسے زرخیز ملک کو دیوالیہ کبھی نہیں ہونے دے گی چونکہ دیوالیہ ہونے کے نتیجے میں دیا ہوا قرض واپس لینا ممکن نہیں ، حکومتی نظام ، عوام پر اور ضروریات زندگی ، عوام کے تباہی کی طرف دھکیل دینے والہ ہوشرباء مہنگائی، تک کہ سیکورٹی کے حوالے سے فیصلوں میں دخل اندازی نہیںکی جاسکتی، اسلئے قسطیںواپس نہ کرنے کی صورت میںآئی ایم ایف خود ہی دانہ ڈالتی ہے مزید قرض لے لو اور اسطرح مضبوط معیشت رکھنے والا ملک قرض کی مزید دلدل میں پھنس جاتا ہے ، قرض لیکر حکمران بغلیںبجاتے ہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف کو راضی کرلیا ملک کی خاطر واہ بڑا کارنامہ کردیا وغیرہ وغیرہ ، پہلے قرض دار کو دیکھا ہے وہ چاہے کوئی انسان ہو یا ملک کہ وہ قرض ملنے پر خوشی کے شادیانے بجائے ۔ ذرا سوچیںکہ جس ملک کی کوئی واضح برآمد نہیں وہ کیا قرض واپس کرے گا ، اسے عوام پر ٹیکس لگا کر ، بجلی مہنگی کرکے ، پیٹرول مہنگا کرکے جسکے نتیجے میں تمام اشیائے ضرورت کی اجناس عوام کی دسترس سے دور ہوجاتی ہیں جرائم بڑھتے ہیں ، خودکشیاںہوتی ہیں ۔ بہرحال اس صورتحال میں پاکستان کے قوانین کے مطابق ، اور آئی ایم ایف کی مہربانی سے ہم وطن عزیز کے 8ویں نگران وزیر اعظم نے حلف اٹھا لیا، میری یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیوںکہا جاتا ہے کے مرکز نے بلوچستان کی حق تلفی کی ہے اب سینٹ کے چئیرمین ، آنے والے چیف جسسٹس، اور نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بلوچستا ن سے ہیں تو بلوچستان کے دکھ در د دور ہوجائینگے ، بلوچستا ن حکومت صوبے میں جب بھی قائم ہوئی ہے اس میں بلوچستا ن کے ہی تو لوگ ہوتے ہیں ،وہاںمسئلہ سرداروں کی اپنی آپس کی لڑائی کا ہے۔ جسے حکومت میں حصہ نہ ہوا وہ اس نے حق تلفی کا بیانیہ جاری کردیا جیسے مینگل قبیلے نے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے تقرری پر کیا ہے ۔ بڑے بڑے نام تھے لوگ شیروانیاں سلواکر بیٹھے تھے مگر یہ اللہ جانتا ہے یا اسٹبلشمنٹ کہ شیروانی پہنے کا کون حق دار ہے ، جبکہ گزشتہ حکومت کے قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے کہاہے کہ انوار الحق کا نام انہوںنے تجویز کیا تھا جسے سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے قبول کیا ۔ جبکہ لوگ کہتے ہیں کہ گزشتہ حکومت کے قائد حزب اختلا ف اور عمران حکومت کے پنجاب میں وزیر اعلی بزدار میں کوئی فر ق نہیں ۔ مگر خدا کا شکر ہے اس دفعہ نگران حکومت کیلئے وزیر اعظم پاکستان کا ایک محب وطن ہی مل گیا جبکہ ایک وقت تو امریکی شہریت کے حامل معین قریشی کوزبردستی انکی مرضی کے بغیر پاکستان لاکر وزیر اعظم بنایا گیا تھا  جن کے پاس پاکستا ن کا شناختی کارڈ بھی نہیں تھا ائر پورٹ پر انکی آمد پر وہیں ہنگامی طور پر انکا شناختی کارڈ کا اجراء ہوا ۔ جس پر پتہ وزیراعظم ہائوس درج تھا۔ معین قریشی کی آمد سے پہلے ہی ان کے بھائی بلال قریشی کی معاونت سے شیروانی بھی سلوائی جا چکی تھی تاکہ وہ پاکستان کے قومی لباس میں نگران
 وزیراعظم کا حلف اُٹھا سکیں۔معین قریشی انتخابات ہونے کے فوری بعد امریکہ واپس لوٹ گئے اور انتقال ہونے پر وہیں دفن ہوئے۔ آئینی طور پر انتخابات کا انعقاد 90دن میں ضروری ہے مگر موجودہ نگران وزیر اعظم کا نام تجویز کرنے والے سابقہ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف راجہ ریا ض کی بیان ملاحظہ ہو وہ کہتے ہیں کہ کاغذ پنسل لے کر میری بات لکھ لیں کہ سترہ فروری سے ایک ہفتے پہلے یا پندرہ فروری کے ایک ہفتے بعد الیکشن ہوجائیں گے یہ میری طرف سے بریکنگ نیوز ہے اس میں اگر کوئی کمی ہو تو میں ذمہ دار ہوں۔ میں سیاسی ورکر ہوں میں جانتا ہوں الیکشن فروری میں ہونے ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ چند دن پہلے آپ کہہ رہے تھے اگر الیکشن ملک کی خاطر ملتوی بھی ہوجائیں تو کوئی بات نہیں ہے اس کے جواب میں راجہ ریاض نے کہا کہ میں اب بھی اسی بات پر کھڑا ہوں،تو اسکا مطلب ہے انہیں بھی کچھ پتہ نہیں ۔ اس بار جتنے متوقع امیدواروں کے نام لئے جارہے تھے ان میں سب سے پہلے عبدالحفیظ شیخ پر غور کیا گیا مگر انہیں نگران وزیراعظم بنائے جانے کی صورت میں یہ تاثر جاتا کہ آئی ایم ایف کابندہ لگادیا گیا ہے جو ہرگز غلط نہیں تھا ۔سیاسی جماعتوں کی خواہش تھی کہ کسی ٹیکنوکریٹ کے بجائے قابل اعتماد سیاسی شخصیت کو یہ ذمہ داری سونپ دی جائے۔میاں نوازشریف چاہتے تھے کہ اسحاق ڈار نگران وزیراعظم بنیں تاکہ آئندہ چند ماہ کے دوران معیشت میں بہتری کا کریڈٹ انکی جماعت کو جائے۔مگر اسٹیبلشمنٹ نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔آخر کار سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کو نگران وزیراعظم بنانے کا فیصلہ ہوا۔جہاں بلا کر بات چیت کی جاتی ہے وہاں ان کا غیر رسمی انٹرویو ہوگیا،ان کی رہائشگاہ پر سکیورٹی کے انتظامات کردیئے گئے،انہوں نے مبارکبادیں وصول کرنا شروع کردیں لیکن شاید یہ سب کچھ بلف گیم کا حصہ تھا۔موقع آنے پر جادوگر کی طرح ہیٹ سے بلوچستان کارڈ نکال لیا گیا اور یہ کہا جانے لگا کہ نگران وزیراعظم چھوٹے صوبے سے ہونا چاہئے۔ سینیٹر انوارالحق کاکڑ کے بارے میں یہ گفتگو ہورہی ہے کہ وہ محمد خان جونیجو اور ظفراللہ جمالی بنیں گے یا پھر صادق سنجرانی ثابت ہوں گے۔ انوارالحق کاکڑ نے بلوچستان کی محبت میں کہا کہ بلوچستان کو لاشیں تو رقبے کے حساب سے ملتی ہیں مگر وسائل آبادی کے تناسب سے۔ان کی قابلیت اور صلاحیت پر ہرگز کوئی دورائے نہیں وہ قابل شخص ہیں ،نوجوانو ںکی فہرست میں شام ہیں اسلئے لگتا ہے یہ نگران وزیراعظم صرف 3ماہ کے لئے نہیں لائے گئے،منصوبہ بہت طویل ہے چونکہ پاکستان کے معاشی حالات ایسے نہیں کہ انتخابات پر اربوںروپیہ خرچ کیا جائے مگر شائد انتخابات کرانے کیلئے مزید فنڈ دے دے چونکہ کوئی بھی غیر منتخب حکومت عالمی اداروں، بیرونی دنیا میں اچھی نہیں سمجھی جاتی ، نگراں وزیر اعظم کی ترجیحات میں، مختصر کابینہ ، بیروںملک پاکستان کو جو امیج بنادیا گیا ہے اور ملک دشمن عناصر جیب میں غیر ملکی پاسپورٹ رکھ کہ سوشل میڈیا پر پرانے جنکی معیاد ختم ہوچکی ہو آگ لگاتے ہوئے دکھائے جارہے تاکہ پاکستان بدنام ہو اورنام نہاد انسانی حقوق کی رہنماء پاکستان میں ہونے والی ذیادتیوںپر آواز اٹھائیںان پر خاص توجہ دیں کوشش کریں کہ عوام جو اب صرف زبان اور صوبے کی بنیاد پر ہیں نہیں انکے ذہنوں میں منفی سوچ بٹھا دی گئی اسلئے قومی یک جہتی کے فقدان کو دور کرنے کیلئے نہائت توجہ سے کام کریں اگر قومی یکجہتی قائم ہوجائے تو اس ملک میں اور عوام میںاتنی صلاحیت ہے جس پر توجہ نہیں دی گئی قومی جہتی ہوجائے تو اس ملک کو کسی آئی ایم ایف کی ضرورت بھی نہیں ، عوام تو ہر حالت میں محنت کیلئے تیار ہیں لیڈر شپ ایماندار اور محب وطن ہو اور قائد کے اس ملک کو اللہ کا تحفہ سمجھیںتوکسی آئی ایم کی ضرورت نہیں۔

ای پیپر دی نیشن