پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سیکرٹری جنرل اورسابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی وخصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا ہے کہ جڑانوالہ کے دلخراش واقعات ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ بعض مذہبی گروہوں نے آزادانہ طور پہ عوام میں مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے جنونیت پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ اسلامی ریاست میں جتھہ بازی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو جلا کر دین کی کوئی خدمت نہیں ہوتی، ملک میں قانون اور عدالتیں موجود ہیں۔ ریاست کے اداروں کو ان گروہوں کو قابو میں لانا ہو گا چونکہ یہ مخصوص حالات میں پنپے ہیں۔ کوئی شخص قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتا چونکہ ہر جرم کے لئے قانون موجود ہے۔ ان خیالا ت کااظہار احسن اقبال نے جمعرات کے روزٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں کیا۔ احسن اقبال نے کہا کہ ہم نے پاکستان اس لئے حاصل کیا تھا چونکہ مسلمان بحیثیت اقلیت خود کو متحدہ ہندوستان میں غیر محفوظ سمجھتے تھے۔ اگر پاکستان میں کوئی اقلیت خود کو غیر محفوظ سمجھے تو یہ نظریہ پاکستان کی نفی ہو گی۔ 12-14 سال کے نوجوان ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑ کر جس طرح ایک مذہبی جماعت کے نعرے لگاتے ہوئے فوٹیج میں نظر آ رہے ہیں یہ رجحان لمحہ فکریہ ہے اور سیالکوٹ کے دلخراش واقعہ کی یاد دلاتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور علما کو معاشرے میں ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے ملکر کام کرنا ہو گا۔ اس واقعہ سے پہلے بھارت میں منی پور کے واقعات دنیا کو بھارت میں اقلیتوں سے ناروا سلوک پہ متوجہ کر رہے تھے اس واقعہ نے میڈیا کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا۔کیا یوں دین کی کوئی خدمت ہوئی یا ملک کی نیک نامی ہوئی؟ احسن اقبال نے کہا کہ مسیحی برادری نے پاکستان کو ووٹ دیکر تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ وہ بھی پاکستان میں اتنے حصہ دار ہیں جتنے مسلمان ہیں۔ پاکستان ایک گلدستہ ہے جس میں سب پھولوں نے ملکر اس کو حسین بنانا ہے اور ہم سب نے ہم آہنگی اور یکجہتی کیساتھ رہنا اور بسنا ہے۔ یہی ہمارے دین کی تعلیم ہے۔