سیّد روح الامین
کلیم احسان بٹ کی شاعری میں ایک فسانہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے۔اس فسانے کا تعلق محض ماضی نہیں بلکہ ماضی بعید سے ہے یہ وہ زمانہ ہے جب دوست دوستوںکے ساتھ ساتھ نیکی اور وفا کیا کرتے تھے۔ دوستوں کے خیال سے بھی فرحت و نشاط کے در کھل جایا کرتے تھے۔دوست دوستوں کے مددگار اور ہمت و حوصلہ ہوتے تھے۔دوست دوستوں کی مدد سے ہی ہوا کی بلندیوں میں اڑ سکتے تھے۔دوست دوستوں کے محافظ ہوتے تھے اور ان کے لیے اپنی جان بھی دے دیا کرتے تھے۔ صدق و صفا اور وفا دوستوں کی نمایاں صفات ہوتی تھیں۔لیکن یہ قصہ پارینہ ہوا۔سماج اور سماجی رویوں میں اب بڑی تبدیلیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ ویسے دوست رہے نہ ویسی دوستیاں۔سماج اور معاشرت میں ایسی کلیدی تبدیلی واقع ہو چکی ہیں کہ انسانی رویوں اور اقدار سب کچھ بدل گیا ہے۔
سماجی و معاشرتی رویوں میں تبدیلی کلیم احسان بٹ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ان کی شاعری میں اس حوالے سے کثرت سے اشعار ملتے ہیں۔بالخصوص دوستی میں منافقت خود غرضی مفاد پرستی کے خلاف کلیم کا قلم تلوار بن کر چلتا ہے۔دوستی کے بارے ان کے کہے گئے اشعار تعداد میں اتنے کثیر ہیں کہ ان میں دوستی کا ہر زاویہ اور ہر رنگ نمایاں ہو گیا ہے۔ان کے پہلے مجموعہ کلام موسم گل حیران کھڑا ہے سے لے اب تک کے ان کے آخری اور چھٹے مجموعہ کلام خد و خال خاک ہوئے تک دوست اور دوستی کلیم احسان بٹ کا مستقل متواتر اور پسندیدہ موضوع بنا ہوا ہے۔انہیں ایسے دوست میسر رہے ہیں جن کی سرشت میں وفا تھی۔
اپنے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ وہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر دوستوں کے ساتھ رہے ہیں ، اپنے دوستوں کی پریشانی میں انہیں چین نہیں پڑتا ، وہ تمام لوگوں سے دوستانہ مراسم بڑھانا چاہتے ہیں ، دوستانہ مراسم بڑھانے کے واسطے وہ دشمنوں کی حمایت میں جنگ تک کرنے کو تیار ہیں ، میں دوستانہ مراسم بڑھانا چاہتا تھا ، میں دشمنوں کی حمایت میں جنگ کرتا رہا، انہیں دوستوں کے اخلاص پر اعتماد ہے اور دوستوں کی آزمائش ان کے نزدیک حماقت ہے، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دوستوں کو آزمانے سے دوست دوست نہیں رہتے ، وہ دوستوں کی عدم موجودگی میں انہیں یاد کر کے خوشی حاصل کرتے ہیں ، پرانے یار ملنے سے پرانے دن نہیں آتے ، مگر کچھ دیر بچپن کا زمانہ دیکھ لیتے ہیں، وہ کسی کو اجازت نہیں دیتے کہ ان کے سامنے ان کے دوستوں کو برا بھلا کہے ، لیکن جب وہ سنتے ہیں کہ ان کے قریبی دوست بھی دشمن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں تو انہیں بہت دکھ ہوتا ہے ۔
یہی وہ مقام ہے جہاں دوستوں کی منافقت اور ریاکاری کا قصہ شروع ہوتا ہے اس قصے کے کردار ایک ایک کر کے ہمارے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں :
میرے دشمن شکست کیا دیتے
اس میں کچھ دوستوں کی سازش تھی
دوستوں کے پہرے میں رات میں تو سویا تھا
جانے کس طرح آیا دشمنوں کے نرغے میں
ہر صف الٹی لشکر زخمی تیر نشانے دیکھے
جب دشمن کی صف میں سارے یار پرانے دیکھے
اب مری قوت پرواز سے جل جاتے ہیں
یہ مرے دوست کہ کل تک جو مرے شہپر تھے
مصروف ہیں اغیار ابھی مشق ستم میں
پہنچا نہیں لشکر ابھی یاروں کا مدد کو
تھا مرے سامنے دشمن میرا
تیر پھر کس کی کماں سے نکلا
میرے پیچھے چل رہا تھا اک ہجوم دوستاں
مڑ کے دیکھا اور پھر حیرت سے پتھر ہو گیا
عجیب اس نے بھی شاطر دماغ پایا ہے
وہ دوستی میں بھی دشمن کی چال چلتا رہا
کلیم احسان بٹ سارا الزام دوستوں کے سر نہیں رکھتے بلکہ خوب سمجھتے ہیں کہ ان کے مزاج میں بھی تنہائی ہے لہذا اس میں دوستوں کا زیادہ قصور نہیں اگر دوست بے وفا تھے تو ہم بھی اپنی ذات کے حصار سے نہیں نکل پائے
ہجوم شہر میں ملتی ہے ایک تنہائی
میں اپنی ذات میں تنہا ہوں دوستاں ایسا
کچھ ہم حصار ذات سے نکلے نہ عمر بھر
کچھ دوست زندگی میں ہمیں بے وفا ملے
دوستی کا ایسا قحط ہے کلیم احسان بٹ
دوست کے تھوڑی دیر ساتھ چلنے پر بھی قانع ہیں
اب ساتھ نبھانے کی کوئی شرط نہیں ہے
اے دوست ذرا دیر مرے ساتھ چلو گے
تو اگر ہے دوست میرا آستینیں مت چھپا
دوستی کے حوالے سے کلیم احسان بٹ کی شاعری سے منتخب اشعار
میرے لشکر کے کماندار مرے قاتل تھے
مرے دشمن تو نہیں یار مرے قاتل تھے
ہم اسے دوست بن کے ماریں گے
دشمنوں میں ہوا ہے سمجھوتہ
دشمن نے وہاں روک لیا پانی کا رستہ
کچھ دوست یہاں آگ لگانے میں لگے ہیں
وہ مرا دوست ہے لیکن یہ عجب قصہ ہے
وہ مری جیت کے امکان سے جل جاتا ہے
دشمن سے کیا کہیں کہ آگر دشمنی کرے
تم نے بھی کام دوستوں والا نہیں کیا