چودہ اگست 1947ءکو پاکستان معرض ِ وجود میں آیا تو جنرل اخترعبدالرحمن شہید، جنھیں روس کے خلاف افغان جنگ کے پس منظر میں عالمی اور افسانوی شہرت حاصل ہو چکی ہے، اس وقت نوجوان سیکنڈ لیفٹیننٹ تھے، اور مشرقی پنجاب ( بھارت ) میں تعینات تھے، اور ہندووں کی متعصبانہ ذہنیت اور مکاری کو بہت قریب سے دیکھ چکے تھے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد وسیع پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی اور ہندووں کی بربریت کا انھوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا۔ وہ یہ بھی جان چکے تھے کہ ہندو کبھی مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا ہے۔ دھوکا اور فریب اس کی فطرت میں شامل ہے۔ جب بھی اس کو موقع ملے گا، وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اور اس کی ہندو قیادت سے انھوں نے اپنی نفرت کو کبھی نہیں چھپایا تھا۔ دسمبر 1964ء میں اختر عبدالرحمن 24 فیلڈ رجمنٹ کے سیکنڈ ان کمانڈ ہو کر لاہور پہنچے تو اس وقت انھیں معلوم نہ تھا کہ صرف چند ماہ بعد ستمبر 1965میں انھیں بھارت کے خلاف اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملنے والا ہے۔
پاکستان کو معرض وجود میں آئے 18برس بیت چکے تھے۔ اس عرصہ میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود وہ اپنے پاوں پر کھڑا ہو چکا تھا اور نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ترقی اور خوشحالی کی منزل کی طرف گامزن تھا۔ ظاہر ہے، بھارت کو یہ گوارا نہیں تھا۔ چنانچہ اس نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے اور اس کی ترقی کا پہیہ جام کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔
مئی 1965میں 10ویں ڈویژن کے دستے برکی کے بارڈر پر تعینات ہوئے، تو جنرل اختر عبدالرحمن نے، جو اس وقت میجر تھے، بی آر بی نہر کے پار بنگالی گاﺅں میں اپنا خیمہ نصب کر لیا۔ اگلے چارماہ میں وہ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف ہو چکے تھے۔
6 ستمبر کو جب بھارت نے رات کے اندھیرے میں اچانک حملہ کر دیا، تو اس وقت وہ کچھ علیل تھے۔ تاہم ان کی جنگی تیاری ہر طرح سے مکمل تھی۔ چنانچہ حملہ کی اطلاع ملتے ہی وہ اپنی علالت کو بھول کر خیمے سے باہر نکل آئے اور دو میل جنوب میں واقع رجمنٹل کمانڈ پوسٹ پر چلے گئے۔ یہ پوسٹ امرودوں کے ایک چھوٹے سے باغ میں قائم کی گئی تھی۔ میجر شفقت بلوچ نے وائر لیس پر بھارتی ٹینکوں کے حرکت میں آنے کی ا طلاع دی۔ پلان یہ تھا کہ جنگ شروع ہوتے ہی اگلے مورچوں پر تعینات توپچیوں کو بی آر بی نہر کے اس طرف منتقل کر لیا جائے گا۔ اسی حکمت عملی کے تحت میجر شفقت بلوچ اپنے جوانوں کو لے کر پیچھے ہٹنے لگے۔ میجر اختر نے بھی اپنے جوانوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا، لیکن توپ کھینچنے والی ایک گاڑی عین وقت پر خراب ہو گئی۔ میجر اخترکو اس کی اطلاع دی گئی، تو ان کا جوابی حکم تھا کہ کچھ بھی ہو، مقررہ وقت کے اندر اندر توپوں کی واپسی ہر قیمت پر ہو گی۔ دن کا ایک بج رہا تھا اور پل کو اڑانے کے لیے فلیتے کو آگ لگائی جاچکی تھی، جب برکہ کلاں سے آخری توپ کی واپسی ہوئی۔ کچھ ہی دیر میں پیچھے ایک زبردست دھماکہ ہوا اور پل کے ٹکڑے فضا میں بکھر گئے۔7 ستمبر کی صبح میجر اختر کو ہنگامی طور پر آرٹلری بریگیڈ ہیڈکوارٹر میں طلب کیا گیا اور مطلع کیا گیا کہ ان کا بریگیڈ میجر بیمار ہو گیا ہے، لہٰذا اب انہی کو ڈویڑنل ہیڈکوارٹر میں بھی فرائض دینا ہو ں گے۔ تازہ احکامات ملنے پر میجر اختر آرٹلری کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پہنچے ہی تھے کہ اطلاع ملی کہ بھارتی ٹینک برکہ کلاں کے قریب پہنچ چکے ہیں ، یعنی وہ ہڈیارہ سیم نالہ، بی آر بی سائفن کے نیچے سے گزر کے لاہور میں داخل ہو سکتے ہیں۔
میجر اختر کا کوارٹر ماسٹر قریبی علاقہ میں ہی تھا۔ انھوںنے فوراً وائرلیس پر اس سے رابطہ قائم کیا اور اس اطلاع کی تصدیق کرنے کی ہدایت کی۔ ایک کیپٹن اسی وقت اپنی جیپ پر سائفن کے نیچے سے گزر کر موقع پر پہنچا، تو وہاں کوئی ٹینک نظر نہیں آ رہا تھا۔ صرف اسلحہ سے بھری کچھ گاڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ اس نے میجر اختر کو اس بارے میں آگاہ کر دیا۔ اس اثنا میں میجر اخترخود بھی موقع پر پہنچ گئے اور واپسی پر توپچی کو فائر کاحکم دیا۔ یوں برکی کے محاذ پر دفاع لاہور کے لیے جو پہلی گولی چلی، وہ میجر اختر کے حکم پر چلائی گئی۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے ایک بار خود بھی اپنے رفقائے کار کو بتایاکہ لاہور کی طرف پیش قدمی کرتی ہوئی بھارتی فوج پر پہلی گولی انہی کی یونٹ نے چلائی تھی، اورجیسے ہی یہ فائر ہوا، اسی لمحے ان کو یقین ہو گیا تھا کہ انھوں نے بھارتی فوج کو گردن سے دبوچ لیا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے بھارتی پیش قدمی کو اس وقت تک روکے رکھا، جب تک کہ پاکستانی فوج نے اس محاذ پر اپنی پوزیشنوں کو مستحکم نہیں کر لیا۔
جنرل اختر عبدالرحمن خان کو اس پر بھی فخر تھا کہ1965کی جنگ میں برکی کے محاذ پر ان کے توپچیوں نے بہترین کارکردگی دکھائی تھی۔ فی گھنٹہ 60، 65 گولوں کی عام اوسط کے بجائے ان کے توپچیوں نے فی گھنٹہ 120گولے برسائے تھے اور بعض موقعوں پر اتنی شدید گولہ باری کی تھی کہ توپوں کے دہانے سرخ ہو گئے تھے۔
برکی کے محاذ پر میجر اختر عبدالرحمن کی رجمنٹ نے اپنے حصے کا کردار ادا کر دیا تھا۔ بھارت کا بزدلانہ حملہ پسپا ہو چکا تھا۔ بریگیڈئر محمد یوسف اپنے مشاہدات پر مبنی کتاب “ خاموش مجاہد “ میں لکھتے ہیں، ”میجر اختر نے برکی کے محاذ پر جس طرح اپنی یونٹ کی کمان کی، وہ بھارت سے ان کی گہری کا نفرت کا بھرپور اظہار تھا۔ جنرل اسلم بیگ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ؛ ”1965ءکی جنگ میں بھارتی فوج کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملانے والے شہیدوں اور غازیوں نے عہد رفتہ کے مسلمان مجاہدوں کی یاد تازہ کر دی تھی اور ان میں اختر عبدالرحمن کا نام بھی شامل ہے۔“
23 ستمبر1965ءکو جنگ ختم ہوئی، تو اسی روز اختر عبدالرحمن کو میجر کے عہدے سے ترقی دے کر لیفٹیننٹ کرنل بنا دیا گیا، جو اس جنگ میں ان کے بھرپورکردار کا اعتراف تھا۔