آزادی کا درس

نوجوان نسل کو پاکستان کے قیام کے پس منظر سے پوری طرح روشناس کرانے کی بہت سخت ضرورت ہے کہ آزادی ایک انمول نعمت ہے۔ 14 اگست پاکستان کے مسلمانوں کے لیے خصوصی طورپرایک یادگار اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ 14 اگست 1947ءکو اسلام کا قلعہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر معرضِ وجود میں آیا۔ اس وطن عزیز کے قیام کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی بے شمار قربانیاں پیش کیں۔ پاکستان کے حصول کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے شہادت کا جام نوش کیا۔ ان قربانیوں کا ذکر کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ کیا ہماری آج کی نوجوان نسل اس سے آشنا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے اس وطن کے قیام کے لیے کتنی قربانیاں دیں ہیں۔ 
پاکستان کی آزادی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ کسی بھی نعمت سے کم نہیں ہے اور اس پر اللہ کا جتنا بھی شکر گزار ہوا جائے کم ہے۔ ہر سال نوجوان نسل 14 اگست کو ملک کی آزادی کا جشن جوش و خروش سے منا تے ہیں، ملکی سطح پر ہر علاقے میں رنگ برنگی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جبکہ عوام الناس بھی اپنے طور پر جلسے جلوس کا انعقاد کرتے ہیں، ان پر جوش تقریبات کے بعد ہم پھر ایک سال کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں، حالانکہ جشن آزادی تجدید عہد کا دن ہے اور ہمیں اجتماعی طور پر 14 اگست کے دن اس عہد کو دہرانا چاہیے کہ جس مقصد کے لیے ہم نے لاکھوں قربانیاں دے کر یہ وطن عزیز حاصل کیا تھا ہم اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسی جذبہ سے کام کریں گے جو جذبہ تحریک آزادی کے وقت تھا اور کیا ہمارے نوجوان نسل اور قیام پاکستان کے بعد آنے والی نسلوں میں یہ جذبہ موجود تھا اور اب بھی ہے کہ وہ اس وطن کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ یوم آزادی کے مختلف تقاضے ہیں سب سے پہلا تقاضا تو قربانی ہے کہ آزادی قربانی مانگتی ہے اور اس کے علاوہ یوم آزادی کا سب سے بڑا جو تقاضا ہے کہ وہ ہم آپس کے اختلافات کو ختم کریں اور اپنے اندر اتحاد کو قائم کریں تا کہ دشمن کی سازشوں کا مل کر مقابلہ کرسکیں۔ بطور آزاد قوم ہمارا یہ نصب العین ہونا چاہیے کہ ہم کسی بھی طرح کی گروہ بندی، فرقہ واریت، لسانی یا صوبائی اختلافات میں نہ پڑیں اور ہمارے عظیم قائد حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے قوم کو جو درس دیا اس میں بھی انھوں نے قوم کو اتحاد، ایمان اور تنظیم کا درس دیا۔ یعنی سب سے پہلا درس ہی اتحاد کا دیا اور کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے اتحاد بنیادی چیز ہے۔ اس کے لیے ایک مثال دوں گا کہ مقبوضہ کشمیر میں یوں تو ظلم و ستم ایک عرصے سے جاری ہے لیکن 5 اگست 2019ءکے بعد جو انڈیا نے وہاں ظلم و ستم بپا کر رکھا ہے وہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب ہمارے بزرگوں نے انگریزوں سے ملک کو آزاد کرانے کی لیے کوششیں کیں تھیں جس کی یاد میں ہم یہ دن منارہے ہیں اور ایک وقت یہ ہے کہ ہمارا ملک شدید بحران سے گزر رہا ہے، معاشی حالات انتہائی خراب ہیں، سیاسی جماعتیں آپس میں تفرقہ بازی کا شکار ہیں پھر ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کے چکر میں ہے۔ 
جشن آزادی یہ نہیں ہے کہ ہم نے جھنڈا لہرا لیا، کیک کاٹ لیا، بچوں کو سبز اور سفید کپڑے پہنا دیے یہ ظاہری تقاضے ہیں لیکن اصل مقصد جشن آزادی کا کچھ اور ہے جسے قوم کے ہر فرد بچے بوڑھے اور نوجوانوں کو ازبر کرنے کی ضرورت ہے۔ انگریزوں کے مظالم کی داستان اور پھر ہندو انتہا پسندوں کے مظالم سامنے لائے بغیر اس آزادی کی قدر قیمت کا احساس نہیں دلایا جاسکتا، حب الوطنی اور قومیت کے جذبات اس وقت تک ماند رہیں گے، جب ہم گذشتہ 77 سال کی اپنی قومی پیش رفت، ترقی و بہبود کی رفتار، آزادی کے ممکنہ ثمرات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملک کی سالمیت کی بقا کے سلسلے میں اپنی کاوشوں کا محاسبہ کریں، جشن آزادی محض ایک رسم کا نام نہیں ہے بلکہ اسی محاسبے کا نام ہے۔ 14 اگست کیونکہ جشن آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ ایک محاسبے کا دن ہے کہ بطور قوم ہم کہاں کھڑے ہیں ہم نے اپنے ملک کی ترقی کے لیے کیا کردار ادا کیا ہے، ہمارے بزرگوں نے کیا کارنامے انجام دیے ہیں، کیا اہم ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں یا ہم ان کی راہ سے بھٹک چکے ہیں۔
 ہمارے ملک کی سرحدوں کی محافظ تو ہماری مسلح افواج ہیں جو اپنا فریضہ بخوبی انجام دے رہی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت جیسے دشمن کے ہوتے ہوئے پاک فوج اس آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح اس وقت ہمارے معاشی حالات ہوچکے ہیں کیا ہمارے سیاسی و سویلین ادارے بھی اسی دلجمعی سے ملک کی آن بان شان اور اس کی آزادی اس کی خود مختاری کو برقرار رکھنے کے لیے ویسا ہی جذبہ رکھتے ہیں اور ویسے ہی دلجمعی سے کام کر رہے ہیں اور کیا ہمارے بچے، نوجوان نسل کو ان قربانیوں سے روشناس کرایا جارہا ہے یہ بنیادی سوالات ہیں جو جشن آزادی کے وقت یہ ملک خداداد پاکستان ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں بحیثیت قوم اپنی صلاحیتوں پر پورا بھروسا رکھنا ہوگا اور قوم کو موجودہ مشکلات سے نکالنے کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہنا ہوگی اور ساتھ ہی ساتھ ہم نے اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ہم نے آزادی جیسی اس عظیم نعمت کو کھونے نہیں دینا اور اقوام عالم میں ملک کا نام بلند کرنے کے لیے ہر فرد کو اپنی سطح پر کوششیں جاری رکھنا ہوں گی یہی آزادی کا تقاضا ہے اور یہی 14 اگست کا درس ہے جو ہمیں یاد رکھنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن