جنرل ضیاءالحق شہید کا مقدمہ اللہ کی عدالت میں 

Aug 17, 2024

محمد اعجاز الحق

 پیشہ سپہ گری سے منسلک ہونے کے روز اول ہی سے ہر آفیسر خواہ اس کا تعلق بری فضائیہ اور بحری فوج سے ہو اس کے ذہن پر یہ بات نقش کردی جاتی ہے کہ اس نے اپنی جان دے کر بھی اپنے قومی علم کو بلند رکھنا ہے اور ملک کا دفاع کرنا ہے ہر روز تقریباتی طور پر صبح سویرے منہ اندھیرے قومی پرچم لہرائے جاتے ہیں کہ اہل عساکر میں اپنے وطن سے محبت اور یگانگت کا جذبہ پیدا کیا جائے“ اسی جذبے کے تحت ‘ 1950 میں جنرل محمد ضیاءالحق نے گائیڈ کیولری میں شمولیت اختیار کی دس سال تک اسی یونٹ میں رہے‘1955 کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ سے گریجویشن کی‘ اسی کالج میں انسٹرکٹر بھی رہے‘ انہوں نے رسالہ کی ایک کور‘ ایک آرمڈ بریگیڈ‘ ایک آرمز ڈویڑن‘ اور ایک کور کی کمانڈ کی‘ جنرل محمد ضیاءالحق جنرل گل حسن کے سٹاف آفیسر بھی رہے‘52 سال کی عمر میں آرمی چیف مقرر ہوئے‘ وہ اعلی کاکردگی کے دلداہ تھے اور بہترین پریزنٹیشن کے تو گویا شیدائی تھے‘ بے حد ملن سار‘ خوش طبع‘ مہمان نواز تھے‘ ہر کام میں حد درجہ نفاست مانگتے تھے‘ اپنے ملٹری سیکرٹری اور دیگر سٹاف کا تقرر بہت دیکھ بھال کر کرتے اور پھر انہیں اپنے گھر کا فرد ہی سمجھتے تھے‘ فطرت نے انہیں عجیب قوت برداشت سے نوازا تھا‘ وہ اپنے پرانے گھریلو ملازمین کو تبدیل کرنے میں کبھی راضی نہیں ہوتے تھے‘ ساری ساری رات جاگتے مگر کبھی ان کے چہرے پر تھکاوٹ نہیں دیکھی‘ البتہ سفر میں اپنی نیند خوب پوری کرتے تھے‘۔
جنرل ضیاءالحق ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے‘ ان کے سامنے ایک مشن تھا۔ انہوں نے ملت اسلامیہ کے استحکام کے لیے بہت محنت کی‘ مجھے صدر جنرل محمد ضیاءالحق کو بطور والد اور بطور حکمران دیکھنے کا موقع ملا ہے‘ وہ ایک کشادہ ظرف انسان تھے ان کی ذاتی زندگی کبھی بھی کسی قسم کے ہزیمت اور پشیمانی والے کام میں ملوث نہیں رہی تبلیغ اسلام ان کے ایمان کا حصہ تھا اور ان کی آرزو تھی کہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے‘ آزاد خیالی اور لبرل ازم‘ مادر پدر آزادی کو مغربی معاشرے کے اثرات سے ملک کو بچانا چاہتے تھے انہیں یقین تھا کہ مسلم ممالک صرف اسلام کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی اس چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘ جنرل محمد ضیاءالحق کی شخصیت انکے مداحوں اور انکے نقادوں کی نظر میں ایک الگ الگ رخ لیے ہوئے ہے وہ ہر لحاظ سے ایک طاقت ور حکمران رہے مگرکوئی ان کے دامن پر کسی قسم کے کرپشن کے داغ تلاش نہیں کرسکاہ
 1979 میں ملٹری کونسل نے انہیں نشان امتیاز (ملٹری) دینے کا فیصلہ کیا مگر انہوں نے یہ پیش کش قبول نہیں کی اور کہا کہ میری کاکردگی کے حسن اور قبیح کا فیصلہ تاریخ اور آئندہ آنے والی نسل پر چھوڑ دیجیے‘ وہ پانچ جولائی1977 سے 17 اگست 1988 تک ملک کے حکمران رہے‘17 اگست ان کی زندگی کا آخری اور پاکستانی قوم کے لیے قومی غم کا دن ثابت ہوا‘ اس روز انکے طیارے کا حادثہ ہوا اور فوجی وردی میں وہ اس حادثے میں اللہ کے حضور پیش ہوگئے‘17 اگست کو وہ معمول کے مطابق تیار ہوئے انکے طیارے نے صبح 8 بج کر21 منٹ پر چک لالہ ائربیس سے پرواز کی‘ اور9 بج کر27 پر بہاولپور کے ہوائی اڈے پر بحفاظت اتر گیا‘ روانگی سے قبل چک لالہ ائربیس پر طیارے کی مکمل دیکھ بھال اور جانچ پڑتال کی گئی‘ اور اسے اڑا کر ٹسٹ فلائٹ بھی کی گئی تھی‘ امریکی ٹینک کا معائنہ کرنے کے بعد وہ تقریباً ساڑھے3 بجے واپسی کے لیے طیارے میں سوار ہوئے‘ اسی ااثناءمیں آموں کے دو کریٹ اور ایک تحفے کا ڈبہ لایا گیا‘ جس میں طیاروں کے یا امریکی ٹینک کے ماڈل تھے‘ C- 130بج کر 46 پر زمین سے اڑا اور چند منٹوں میں جب ان کا طیارہ دریائے ستلج کے اوپر پہنچا تو اس وقت طیارہ کم بلندی پر تھا‘ اس وقت طیارہ لڑکھڑایا‘ طیارے کا رخ نیچے کی طرف ہوا‘ پھراوپر اٹھا‘ ہچکولے کھاتا ہوا سیدھا زمین پر گرا‘3 بج کر 51 پر طیارہ گرا اور اسکے ساتھ اس میں آگ لگ گئی‘ جائے حادثہ بہاول پور ہوائی اڈے سے تقریباً 9 کلو میٹر دور شمال مغرب کی جانب ہے‘ طیارے کی کاکردگی حادثے سے تقریباً دو اڑھائی منٹ قبل ہی خراب ہوگئی تھی‘ اور دیکھتے ہی دیکھتے طیارہ زمین پر آن گرا‘ حادثے کے وقت موسم بھی صاف تھا اور حد نگاہ بھی پانچ کلو میٹر تک تھی موسم کا حادثے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ 
حادثے کی تحقیقات کے لیے اس وقت ائر کموڈور عباس کی سربراہی میں ایک بورڈ بنایا گیا‘ جس کی تحقیقات میں کہا گیا کہ طیارے کو باہر سے کسی نے نشانہ نہیں بنایا‘ جو کچھ بھی ہوا جہاز کے اندر سے ہی ہوا‘ جس طرح جہاز گرنے سے قبل اوپر نیچے ہوا اور لڑ کھڑایا اس سے اندازہ یہی کیا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ پائلٹس کے ساتھ کوئی طبی صحت کامعاملہ ہوا ہو‘ طیارے کے حادثے کی تحقیقات کے لیے جسٹس شفیع کمشن بھی بنایا گیا تھا‘ یہ سب کچھ ایک واقعاتی کہانی کا ہی مواد ہے‘ ہم بطور لواحقین آج تک مطمئن نہیں ہوسکے کہ طیارہ کیوں‘ کیسے گرا‘ اور اس حادثے کے اصل محرکات کیا تھے‘ ۔
اگر یہ سازش تھی تو یہ کہاں تیار ہوئی‘ کون اس میں ملوث رہا‘ کس نے کس کے کہنے پر منصوبہ بندی کی‘ اس حادثے کا فائدہ کس کو پہنچا‘ مجھے کچھ ذیادہ نہیں کہنا بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ صدر جنرل محمد ضیائ الحق کے طیارے کا مقدمہ اللہ کی عدالت میں ہے‘ صدر جنرل محمد ضیا الحق شہید نے اس ملک کے لیے‘ قوم کے لیے اور ملت اسلامیہ کے لیے جو کچھ کیا اب وہ سب تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ سنہرا باب یہ ہے کہ انہوں نے قرارداد مقاصد‘ کو حضرت علامہ شبیر عثمانی صاحب نے اپنے دل کے خون سے روشنائی لے کر لکھی تھی اسے آئین کا حصہ بنایا‘ اور ملک کے عوام کو سر اٹھاکر جینے کی راہ دکھائی۔

مزیدخبریں