پاکستان کی سیاست میں نشیب و فراز اور مدوجزر آتے رہے ہیں۔ اب تو الٹ پلٹ ہو رہا ہے۔ ہر روز ایک بڑی خبر سامنے آتی ہے جس سے لگتا ہے کہ اس سے بڑی خبر کیا ہوگی؟ مگر دوسرے دن تو کیا کبھی تو اسی روز اس سے بڑی دھماکہ خیز صورتحال جنم لے لیتی ہے۔ جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ دوسرے روز تین مزید ریٹائر افسر بھی پکڑ لئے گئے بریگیڈیئر عبدالغفار، بریگیڈیئر نعیم، کرنل عاصم ،ان کے دستِ راست نکلے۔کوئی اسے گروپ ، کوئی گروہ اور کوئی گینگ کا نام دیتا ہے۔اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اکرم ملک کو انکے چھ ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ عمران خان کی حفاظت پر مامور تھے اور انکی غیر قانونی سہولت کاری کرتے تھے۔کل یہ بھی اسٹیبلش ہو سکتا ہے کہ یہ عمران خان کو جیل سے نکالنے کیلئے سرنگ کھود رہے تھے۔ ادھر مہنگائی پھن پھیلائے عوام کو ڈس رہی ہے۔ بجلی کے بلوں نے صارفین پر بجلی گرا دی ہے۔ 16روپے سے یونٹ 12 روپے کرنے کے دعویداروں نے80 روپے تک پہنچا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو لوڈ شیڈنگ لے بیٹھی مسلم لیگ ن کی سیاست کو بجلی کے بل ڈبو دینگے۔آئی پی پیز ڈبل شاہ بن چکی ہیں۔ یہ سسٹم زیادہ نہیں چل سکتا مگر حکمران طبقے کی سمجھ میں تب آتا ہےجب پاو¿ں تلے سے زمین کھنچ چکی ہوتی ہے۔شیخ حسینہ کو بھی چنری سنبھال کر ہیلی کاپٹر میں بیٹھنے تک سب اچھا دِکھتا تھا۔
بیس اکتوبر 2011 ءکو کرنل قذافی کو غصے سے بپھرے باغیوں نے گولیاں مار کر ہلاک کیا اور جیپ کے بونٹ سے لاش باندھ کر گھماتے رہے۔27 ستمبر 1996ءکو افغان صدر نجیب اللہ کو یو این او آفس میں بہیمانہ تشدد کر کے ہلاک کیا گیا۔ ان سے متنفر طالبان نے کئی اعضاءکاٹ ڈالے۔سر میں گولی مار دی گئی۔ پہلے لاش کرین پر لٹکائی گئی پھر صدارتی محل کے قریب ایک کھمبے سے لٹکا دیا گیا تھا۔جن لوگوں نے کرنل قذافی اور صدر نجیب کو تشدد کر کے ہلاک کیا۔ انکی نسبت بنگالیوں میں شیخ حسینہ کے خلاف غصہ نفرت اور اشتعال زیادہ تھا۔ اسکی وجہ ان کے انداز حکمرانی، ظالمانہ و جابرانہ اقدامات اور احکامات تو تھے ہی۔ جب شیخ حسینہ بھارت فرار ہوئیں اس روز بھی سو سے زیادہ لوگ پولیس اور پولیس کے ساتھ عوامی لیگ کے غنڈوں کی سیدھی فائرنگ میں ہلاک ہوئے تھے۔ ڈیڑھ ماہ میں مظاہروں کے دوران پولیس کی فائرنگ سے ساڑھےتین سولوگ مارے جاچکے تھے۔ آخری روز مارے جانے والوں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی تھیں۔مرنے والوں میں سے کسی کا بھائی کسی کا بیٹا کسی کا دوست وزیر اعظم ہاو¿س کا گھیراو¿ کرنے والوں میں شامل تھا۔ اس سے ہجوم کے غیض و غضب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آرمی چیف وقار الزماں نے اپنی محسن و مربی وزیر اعظم کو ملک چھوڑنے کیلئے 45 منٹ دیئے تھے۔جنرل وقار الزماں رشتے میں حسینہ کے بہنوئی ہیں۔ساراناز کمالیکا حسینہ کی فرسٹ کزن ہیں۔وہ متذبذب تھیں مگر جب جنرل وقار نے کہا 45منٹ بعد وزیر اعظم ہاو¿س کی سکیورٹی ممکن نہیں رہے گی تو وزیر اعظم کی آنکھوں کے سامنے کرنل قذافی ، صدر نجیب اور ان کے اپنے والد شیخ مجیب کی ہلاکت کے مناظر کا لہرانا فطری امر تھا۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا ،افغان صدر اشرف غنی کو بھی ایسی ہی صورتحال کاسامنا تھا۔اشرف غنی 15 اگست 2021 ءکو افغانستان سے فرار ہو گئے تھے۔ایک سال بعد وہ متحدہ عرب امارات میں نمودار ہوئے۔ سری لنکا میں بھی ایسے ہی مخدوش حالات کے دوران 13 جولائی ، 2022ءکو صدر گوتابیا راجاپاکسے جان بچا کرفوجی طیارے میں فرار ہو کر مالدیب چلے گئے تھے۔یہ ان کی پہلی منزل تھی‘اب شیخ حسینہ انکی فالور ثابت ہوئی ہیں۔
پاکستان توڑنے کی بنیاد شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمن نے رکھی۔ اس شخص کی تعمیر کردہ نفرت کی دیواروں کو حسینہ نے مزید اونچا کر دیا۔ انہوں نے بنگلہ دیش کو کسی حد تک معاشی ترقی کی راہ پر ضرور ڈال دیا ساتھ ہی ظلم جبر اور عدم برداشت کو بھی فروغ دیا۔ ان کا دورمخالفین کے لیے خوف کی علامت تھا۔ جنوری 2024ءکے الیکشن بری طرح رگ کئے گئے۔ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی پر الیکشن کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ مخالف سیاسی پارٹیوں کے امید واروں کو گرفتار کیا گیا۔ کئی کے کاغذات چھین لیے گئے۔ اس پر اپوزیشن پارٹیوں نے بائیکاٹ کر دیا۔ روایتی اور بے بصیرت حکمرانوں کی طرح محترمہ کو لاوا پکنے کا اندازہ نہ ہو سکا۔ طلبا تحریک شروع ہوئی تو ان کو دہشتگرد قرار دیتی رہیں اور انکے ساتھ دہشتگردوں کی طرح نمٹنے کے احکامات جاری کئے گئے۔مخالفین پر ٹارچر کیلئے پاکستان میں کسی دور میں بنائے گئے دلائی کیمپ کی طرح آئینہ گھر بنائے گئے۔انکے وزیر داخلہ اسد الرحمٰن اور انٹیلی جنس چیف کے مابین بھیانک تال میل تھاجسے کوآرڈی نیشن کہا جاتاہے۔ جس سے ہولناک واقعات نے جنم لیا۔ مخالفین کو اٹھا لینا۔ غائب کر دینا۔ تشدد کرنا۔ لاشیں گرانا، معمول بن گیا تھا۔عدالتیں آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے کے بجائے وزیر اعظم کی خوشنودی کو مدنظر رکھتی تھیں۔شیخ حسینہ راہ فرار اختیار کرتے ہوئے اپنی بہن شیخ ریحانہ کے سوا کسی کو ساتھ نہیں لے کر گئیں۔
انٹیلی جنس چیف میجر جنرل ضیاءالحسن کو بر طرف کر دیا گیا۔انہوں نے فرار ہونے کی کوشش کی ،جہاز میں بیٹھے تھے کہ اتار کر گرفتار کر لیا گیا۔وزیر داخلہ اسد الرحمن کے گھر کی حالت بھی مظاہرین نے شیخ مجیب الرحمن کے مجسمے ، وزیر اعظم ہاو¿س اور شیخ مجیب کی اس رہائش گاہ جیسی کر دی جسے میموریل میوزیم کا درجہ دیا گیا تھا۔سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ انہیں الٹا لٹکا کر ہجوم نے ہلاک کر دیا ہے۔چیف جسٹس جسٹس عبیدالحسن کا گھر بھی مظاہرین نے روند ڈالا۔چیف صاحب نے بھاگ کر جان بچائی۔ وہ فل کورٹ بلانا چاہتے تھے مگر مظاہرین نے اس کی مہلت نہ دی۔ان کو استعفیٰ دینا پڑا۔پولیس چیف کو بھی برطرف کر دیا گیا۔ آج شیخ حسینہ عبرت کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو یہ صرف بنگلہ دیش تک ہی محدود نہیں جہاں بھی ایسا اندازِ حکمرانی ہوگا وہاں ایسا ہی ہونا ہے۔