مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ بجلی کے بل عوام کیلئے ناقابل برداشت ہیں‘ پی ٹی آئی مہنگائی اور مہنگے بل لائی ہے لیکن ہم سے عوام ریلیف کی توقع کرتے ہیں۔ یہ ہماری صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ مشکل ترین حالات میں بھی عوام کو ریلیف کیسے دینا ہے اور ملک کو ڈیفالٹ سے کیسے بچانا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے پارٹی سیکرٹیریٹ ماڈل ٹاﺅن لاہور میں منعقدہ مسلم لیگ (ن) کے اہم مشاورتی اجلاس سے خطاب کے دوران کیا۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف‘ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز‘ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق‘ خواجہ سعد رفیق‘ حمزہ شہباز‘ احسن اقبال‘ رانا ثناءاللہ‘ سلمان شہباز‘ عطا تارڑ‘ اویس لغاری‘ خواجہ محمد آصف‘ علی پرویز ملک‘ بلال اظہر کیانی‘ پرویز رشید اور مریم اورنگزیب سمیت حکومتی اور پارٹی عہدیداران اس اجلاس میں شریک تھے۔
میاں نوازشریف نے اپنے صدارتی خطاب میں اجلاس کے شرکاءکو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ معاشی استحکام واپس لانے کیلئے سیاسی قربانی آپ کی حب الوطنی کا ثبوت ہے۔ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کی طرح اب عوام کو ڈیفالٹ سے بچانا بھی ہمارا بڑا امتحان ہے۔ انکے بقول مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ مشکلات سے راستہ نکالا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی صدر کو قومی معاشی ایجنڈے کے خدوخال سے آگاہ کیا اور سیاسی و عدلیہ کے بحران کے خاتمہ کیلئے پارلیمنٹ کے کردار پر اجلاس کے شرکاءکو بریف کیا۔ انہوں نے شرکاءکو حکومت کے اتحادیوں سے رابطوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا اور بلوچستان میں قیام امن اور وہاں پر جاری مظاہروں کے حوالے سے بریفنگ دی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک کے تمام مسائل کے حل کیلئے ایک جامع معاشی ایجنڈا تیار کرلیا گیا ہے۔ حکومت نے 200 یونٹ تک پروٹیکٹڈ اور نان پروٹیکٹڈ بجلی صارفین کو تین ماہ کیلئے ریلیف دیا ہے۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے ملکی معیشت اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات پر تازہ صورتحال سے اجلاس کے شرکاءکو آگاہ کیا۔ دوران اجلاس میاں نوازشریف نے فیض حمید کیس اور اس سے متعلق معاملات پر پارٹی رہنماﺅں کو کسی قسم کے بیانات دینے کے بارے میں انتہائی احتیاط برتنے کا حکم دیا۔ اجلاس میں شہریوں کو مہنگائی بالخصوص بجلی کے مہنگے بلوں میں ریلیف دینے کے معاملہ پر مفصل غور کیا گیا۔ اجلاس میں امن و امان کے قیام کیلئے اسلام آباد اور پنجاب میں جلسے جلوسوں اور مظاہروں پر پابندی لگانے کی تجویز بھی زیرغور آئی اور امن و امان خراب کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمنٹے کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی اقتصادی اور مالی پالیسیوں کے نتیجہ میں ملک میں روزبروز بڑھتی مہنگائی‘ بے روزگاری اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کے نتیجہ میں ملک کیلئے پیدا ہوتے سنگین بحران کی موجودگی میں اقتدار سنبھالنا مسلم لیگ (ن) کی قیادت کیلئے بہت بڑا چیلنج تھا کیونکہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو سخت پیغام دینے کے ساتھ ساتھ ملک کے عوام بھی مضطرب تھے جو یوٹیلٹی بلوں‘ بڑھتے پٹرولیم نرخوں اور شہری سہولتوں کی کمیابی پر زچ ہو کر تہیہءطوفان کئے بیٹھے تھے۔ اسکے باوجود پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور پیپلزپارٹی نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی منظوری کے بعد ملک اور سسٹم کو خطرات سے نکالنے اور ملکی معیشت کو سنبھالنے کا چیلنج قبول کرتے ہوئے اتحادی حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جس کے دوران بجلی‘ گیس‘ ادویات اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں تسلسل کے ساتھ اضافہ بھی حکومت کی مجبوری بنا اور اس سے ممکنہ طور پر سخت عوامی ردعمل پیدا ہونے کی صورت میں اتحادیوں کو اقتدار کا سنگھاسن ڈولتا ہوا نظر آیا تو اس موقع پر بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے لندن جا کر میاں نوازشریف سے مشاورت کی اور بادل نخواستہ اقتدار میں موجود رہنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ اتحادیوں کی حکومت کے دوران بڑھتے عوامی مسائل نے آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس جانا مسلم لیگ (ن) کی قیادت کیلئے انتہائی مشکل بنا دیا۔ اسکے باوجود انہوں نے اسمبلی کی میعاد پوری ہونے تک اقتدار میں رہنے کافیصلہ کیا۔
اسی دوران میاں نوازشریف ملک واپس آئے اور ان کیلئے عدالتی فیصلوں کے نتیجہ میں انتخابی سیاست میں واپس آنا اور دوبارہ پارٹی کی قیادت سنبھالنا ممکن ہوگیا تو انہوں نے فروری 2024ءکے انتخابات کیلئے عوام کے پاس جاتے ہوئے ان سے اقتدار کیلئے دو تہائی اکثریت دلانے کا وعدے لینے کی کوشش کی تاہم اتحادیوں کی حکومت کیخلاف سخت عوامی ردعمل کی بنیاد پر حکمران اتحادیوں بشمول مسلم لیگ (ن) کیلئے سادہ اکثریت حاصل کرنا بھی مشکل ہوگیا۔ انتخابات کے بعد انہی اتحادی جماعتوں کی جس طرح حکومت تشکیل پائی‘ اسکے بارے میں آج بھی قانونی‘ آئینی‘ عوامی اور دانشوروں کے حلقوں میں قیاس آرائیوں اور بحث مباحثے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کیلئے مزید مشکل صورتحال یہ پیدا ہوئی ہے کہ اسکی اتحادی پیپلزپارٹی بھی امور حکومت کی انجام دہی میں اسکی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے جو بالخصوص بجلی کے انتہائی مہنگے اور ناروا بلوں پر پیدا ہوتے سخت عوامی ردعمل کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں اور سارا ملبہ اپنی حکومتی اتحادی مسلم لیگ (ن) پر گرانے کیلئے کوشاں ہے۔
اس صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کی پارٹی اور حکومتی قیادت کو بلاشبہ بہت بڑے چیلنجز درپیش ہیں جن سے بہتر حکمت عملی کے ساتھ ساتھ عوام کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری بالخصوص بجلی کے بلوں میں ریلیف دیکر ہی عہدہ برا¿ ہوا جا سکتا ہے جبکہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے معاملہ میں عوامی ردعمل سوشل میڈیا کے اس پراپیگنڈے کی وجہ سے زیادہ گھمبیر ہوا ہے کہ بیشتر آئی پی پیز کی ملکیت بھی سابقہ اور موجودہ حکمران اشرافیہ طبقات کے پاس ہے جن کے عزیز واقارب کیپسٹی چارجز کے نام پر قومی خزانے کو چونا لگا رہے ہیں جبکہ ان آئی پی پیز کو ہونیوالی کھربوں روپے کی ادائیگیوں کا بوجھ ہی ”مرے کو مارے شاہ مدار“ کی تصویر بنے بیٹھے عوام پر پڑ رہا ہے۔ اس صورتحال میں اگر مسلم لیگ (ن) کی پارٹی اور حکومتی قیادت باہمی مشاورت سے عوام کو مہنگائی اور یوٹیلٹی بلوں میں معقول ریلیف دینے کی کوئی ٹھوس پالیسی مرتب کرلیتی ہے جسے عملی جامہ پہنانے کا فوری طور پر آغاز بھی ہو جاتا ہے تو یقیناً یہ مسلم لیگ (ن) کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ مشاورتی اجلاس میں یقیناً ان تمام پہلوﺅں کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر عوام کو ریلیف دینے کی پالیسی طے کی گئی ہوگی تاہم اس کے ثمرات اس پالیسی کو حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنا کر ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں جس کیلئے میاں نوازشریف کو خود فعالیت کے ساتھ حکومتی اقدامات کی مانیٹرنگ کرنا ہوگی۔