آرمی چیف کا عزم، سیاسی قیادت، میڈیا کی ذمہ داری اور خواتین کے لباس پر اعتراض!!!!!

ہمیشہ لکھا ہے، کہا ہے کہ افواج پاکستان ملک کے دفاع کی ضامن ہیں، دفاعی اداروں کا مضبوط ہونا پاکستان کے دشمنوں کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتا ہے، اگر کسی کو پاکستان کے دفاعی بجٹ سے تکلیف ہوتی ہے تو وہ ان ممالک پر نظر دوڑائے جنہوں نے دفاعی پر سمجھوتہ کیا، اگر کسی کو افواج پاکستان کی حیثیت سے تکلیف ہے تو وہ شاید آزادی کی قدر و قیمت سے ناواقف ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں آج بھی مختلف حوالوں سے دفاعی اداروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے بالخصوص سیاسی قیادت اپنی ناکامیوں کا ملبہ دفاعی قیادت پرڈالتے ہوئے عوام کے سامنے خود کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی سطح پر مخصوص حلقوں میں ایک مختلف سوچ پیدا ہوتی ہے اور لوگ مختلف انداز میں بات بھی کرتے ہیں لیکن یہ منفی سوچ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل بھی ہوتی ہے۔ آج بھی ملک میں دفاعی اداروں کے حوالے سے بہت بحث و مباحثہ جاری ہے۔ ملک کی مختلف سیاسی جماعتیں کہیں آج اپنے فائدے کے لیے دفاعی اداروں کے ساتھ کھڑی ہیں اور کہیں کچھ سیاسی جماعتوں ادارہ جاتی منصوبہ بندی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ سیاسی قیادت ملکی حالات سے واقف نہ ہو، پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں سے لاعلم ہوں، ایسا بھی نہیں کہ وہ اندرونی و بیرونی دشمنوں کو نہ جانتے ہوں، ایسا بھی نہیں کہ وہ ریاستی اداروں کے مضبوط ہونے کی اہمیت سے ناواقف ہوں ، ایسا بھی نہیں کہ وہ یہ نہ جانتے ہوں کہ اگر ریاستی ادارے اور بالخصوص دفاعی ادارے کمزور ہوتے ہیں تو ہمیں کن مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کا حال سب کے سامنے ہے دیگر تباہ حال ممالک بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ اس کے باوجود سیاسی قیادت بوقت ضرورت ہی دفاعی اداروں پر "ہتھ ہولا" رکھتی ہے۔ ان دنوں بھی وہی ہو رہا ہے۔

میں ہمیشہ یہ کہتا اور لکھتا رہتا ہوں کہ افواج پاکستان میں احتساب کا نظام بہت مضبوط ہے، احتساب کے اس نظام کی وجہ اور دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنے کی وجہ سے انفرادیت بھی قائم ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان کے مختلف ریٹائرڈ افسران کے حوالے سے میڈیا میں بہت باتیں ہو رہی تھیں مختلف معاملات میں انکوائریاں بھی ہو رہی تھیں اس کے نتیجے میں چند ریٹائرڈ افسران کو فوجی تحویل میں لیا گیا ہے اس میں سب سے نمایاں نام آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سب سے نمایاں ہیں۔ اب احتساب کے اس نظام کو دیکھا جائے تو دیگر اداروں میں ایسی مثالیں کہاں ملتی ہیں چونکہ افواج پاکستان کے لیے ہمیشہ پاکستان سب سے پہلا رہا ہے۔ یوم آزادی کے موقع پر بھی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس حوالے سے واضح انداز میں پاکستان دشمنوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا ہم اپنے دشمنوں کو واضح پیغام دیتے ہیں کہ چاہے روایتی یا غیر روایتی جنگ ہو، Dynamic یا Proactive جنگی حکمتِ عملی ہو، ہمارا جواب تیز اور دردناک ہو گا، ہم یقیناً گہرا اور دور رس جواب دیں گے۔ خیبرپختونخوا میں بالخصوص، فتنہ الخوارج کی ریاست اور شریعت مخالف کارروائیوں کی وجہ سے دہشت گردی کے فتنہ نے دوبارہ سر اٹھایا ہے، اِسی فتنے کے بارے میں کہا تھا کہ ‘‘اگر تم شریعتِ اسلام کو نہیں مانتے، آئین پاکستان کو نہیں مانتے تو ہم بھی تمہیں پاکستانی نہیں مانتے’’، ہمارے پختون بھائیوں نے جرات، ایثار اور لازوال قربانیوں پر پوری قوم انہیں سلام پیش کرتی ہے۔ قوم کا پاک فوج پر غیرمتزلزل اعتماد ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہے، کوئی منفی قوت، اعتماد اور محبت کے اس رشتے کو نہ کبھی کمزور کر سکی، نہ ہی آئندہ کر سکے گی، افواج پاکستان نے ملک کے اندرونی اور بیرونی دفاع کی قسم کھا رکھی ہے، ہم کسی بھی صورت اور قیمت پر اپنی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے، پاکستان کا مقام خطے، مسلم امہ اور بین الاقوامی سطح پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے، بے پناہ قْدرتی وسائل، جفاکش عوام اور حوصلہ مند نوجوانوں کی بدولت، بلاشبہ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے ۔
آرمی چیف کی یوم آزادی پر تقریر اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات دیکھ کر مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ سیاست دان کیوں قومی مفادات کو ترجیح نہیں دیتے۔ جس انداز میں یوم آزادی کے موقع پر افواج پاکستان کے سربراہ کی طرف سے اتحاد کا پیغام دیا جاتا ہے، ملکی مفادات کا ذکر ہوتا ہے، ملک دشمنوں کو پیغام دیا جاتا ہے، ملکی مسائل پر بات ہوتی ہے سیاسی قیادت اسی جوش و جذبے کے ساتھ بات کیوں نہیں کرتی ۔ کاش سیاسی قیادت اس طرف توجہ دے۔
اس یوم آزادی پر افواج پاکستان اندرونی احتسابی نظام کے معاملے میں زیر بحث ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ سیاسی قیادت اور میڈیا اس معاملے میں اس نے یہ کہا، وہ کہا، یہ کیا وہ کر دیا کے بجائے تحقیقات کا اور کیس کے منطقی انجام تک ناصرف پہنچنے کا انتظار کرے بلکہ احتساب کی اس سپرٹ کو ملک بھر میں تمام اداروں پر لاگو کیا جائے۔ سیاست دانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم نے قوم کے کردار کو تعمیر کرنا ہے۔ اگر کسی نے آئین و قانون کی خلاف ورزی کی ہے، قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی، اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، حدود سے تجاوز کیا ان کے مقدمات کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہونے دیا جائے، سیاست دانوں کو خود اپنے معاملات میں بھی ہر وقت اس نے کہا، یہ کیا، کیوں کہا، کیا کہا کے بجائے قومی مسائل پر بات کریں۔ قوم کا وقت بیانات میں ضائع نہ کریں۔ میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس نے کہا، فلاں نے کہا، اس نے یہ جواب دیا سے آگے نکل کر کام کرے۔ 
ان حالات میں کہ جب فوج میں سابق اعلی افسران کے خلاف آرمی ایکٹ کہ خلاف ورزی پر کارروائی ہو رہی ہے۔ فوج مخالفین اس معاملے کو متنازعہ بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے ان حالات میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے آرمی ویٹرنز کے اعزاز میں محفل نے ریٹائرڈ فوجی افسران اور جوانوں کی بڑی تعداد میں شرکت نے دشمنوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ آرمی ویٹرنز کے اعزاز میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے استقبالیہ میں ریٹائرڈ فوجی افسران اور جوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ باالخصوص افواج پاکستان کے سابق سربراہان کی موجودگی سے ملک دشمنوں کو بہت واضح پیغام گیا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے دشمن عناصر کی جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کے گھناؤنے خطرے سے بھی خبردار کیا اور کہا کہ یہ پروپیگنڈا عوام اور مسلح افواج کے درمیان تعلقات کو کمزور کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، ویٹرنز سمیت قوم کی غیر متزلزل حمایت ایسی تمام فضول کوششوں کو ناکام بنائے گی۔ویٹرنز نے بھی پاک فوج کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا اور اندرونی و بیرونی سیکیورٹی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔
ہمیں آج بھی ہمیشہ کی طرح متحد رہنے اور دشمن کی چالوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ترقی کے لیے تمام وسائل موجود ہیں۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہے۔ دشمن کی سازشوں کا ناکام بنانا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی پاور اجلاس کے دوران  پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی اقبال آفریدی نے خاتون کے لباس پر اعتراض اٹھایا ہے۔ اجلاس کے دوران  رکن اسمبلی اقبال آفریدی نے خاتون کے لباس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ’چیئرمین صاحب! خاتون کا لباس ٹھیک نہیں ہے۔
قائمہ کمیٹیوں کو اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر پارلیمنٹ میں جس کا جو کام ہے وہ کرے تو عام آدمی کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔ پارلیمانی نظام سے لوگوں کا اعتماد ہر گذرتے دن کے ساتھ کم ہو رہا ہے۔ سیاسی قیادت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اقبال آفریدی کے اس بیان پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں موجود خواتین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
آخر میں اعظم چشتی کا کلام
جے توں وِکیا عشق بازار وی نئیں
 جے توں چڑھیا اْتے دار وی نئیں
ایڈھا سستا سودا پیار وی نئیں
 ایڈھا سوکھا لبھدا یار وی نئیں
کئی جنگل گاہنے پیندے نے
کئی دوزخ لنگنے پیندے نے
جیہڑا بن کے عاشق سْکھ ڈھونڈے
 اوھدی قسمت وِچ دیدار وی نئیں
دل دِتیاں باجھ نہ پیار ملے
 سِر دتیاں باجھ نہ یار مِلے
جے او ایس مْلوں وی مِل جاوے
ایتھوں سستا ہور وِپار وی نئیں
ایہ ایسی کھیڈ پیاراں دی 
ایہ  ایسا  بحر  محبت  دا
کِسے کیتا ایویں پار وی نئیں
 کوئی مَنیا اپنی ھار وی نئیں
کْجھ سمجھ نہ آوے لوکاں نوں
 او کاہدے نال شہید کرے
ڈِٹھی یار دے ہتھ تلوار وی نئیں
 پر خالی جاندا وار وی نئیں
جیہڑا ہو کے کھڑا کناریاں تے
 چھلّاں دے نظارے لیندا اے
جندڑی دے ایس سمندر دے
 او موتیاں دا حقدار وی نئیں
جَد ماہی پچھیا حال میرا
وَگ پئے پرنالے ہنجوواں دے
میں رہ سکیا خاموش وی نئیں
 پر کر سکیا اظہار وی نئیں
سجنڑاں ایس چوٹھی دنیا نے
کی دے دِتا اے کی دے دینا اے
چل یار نوں راضی کر لَیئے
ایس ساہ دا کوئی اعتبار وی نئیں
مدتاں توں چرچا سْندے ساں
اج اکھیں ڈٹھا اے اعظم نوں
سالک وی نئیں مجذوب وی نئیں
کوئی مست وی نئیں ھشیار وی نئیں

ای پیپر دی نیشن