انسداد جرائم کیلئےپولیس کا جاگ کر گشت کرنالازم ہے

حاجی

گزشتہ دنوں کسی کام کے سلسلہ میں ضلع ننکانہ صاحب کے ایک تھانہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں ہم نے ایس ایچ او سے لیکر کانسٹیبل کے رویہ میں بہت اچھی تبدیلی دیکھی ۔ہر ملازم کا انتہائی با اخلاق اور مودب ہونا ایک اچنبے کی بات تھی۔تجسس ہونے پر پتہ چلا کہ اس تبدیلی کی وجہ ڈی پی او ننکانہ صاحب صاعد عزیزصاحب ہیں۔ اسی بات نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اس راست بازپولیس آفیسر سے مل کر ان کے خیالات اور اقدامات سے آگاہی حاصل کریں۔ ان سے ملاقات اور ملاقات کا وقت حاصل کرنے کے لیے ان کے پرسنل سٹاف آفیسراور ڈی پی او آفس کے سب سے متحرک شخصیت غلام حسین سب انسپکٹر سے رابطہ کیا۔ اور اپنی درخواست ان تک پہنچائی اوران کے ذریعے ہی ہماری ملاقات کا وقت طے ہو گیا۔ صاعد عزیز ابھی نو جوان پولیس آفیسر ہیں۔وہ انتہائی خوش گفتار خوش شکل اور چاک و چوبند شخصیت کے مالک ہیں۔ دوران گفتگو وہ مخاطب کو ھیپناٹائز کر لیتے ہیں۔ان سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو ہمارا پہلا سوال ان کے خاندانی پس منظر اورابتدائی تعلیم کے متعلق ہی تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میرے والد  ملک عبدلعزیز پولیس میں ایک بڑے عہدے پرفائزرہے۔اوروالدہ ڈاکٹرہیں۔ابتدائی تعلیم فیصل آباد ،میانوالی اور لاہورسے حاصل کی ۔انجینئرنگ کی ڈگری یو۔ ای۔ ٹی لاہورسے حاصل کر کے مزیداعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے گئے اوروہاں سے ماسٹرڈگری کی بعدازاں 41 ۔ویںکامن میں سی ۔ایس ۔ایس کا امتحان پاس کیا۔ اسی سیشن میں میری پہلی پوزیشن تھی۔اورمجھے اعزازی شمشیر بھی ملی۔ہمارے اس سوال پر کہ سی ۔ایس ۔ایس میںاتنی اچھی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد آپ کی فیلڈ انجینئرنگ کا شعبہ بنتا تھا۔ لیکن آپ پولیس میںآگئے۔ا انہوں نے بتایاکہ   کیونکہ میرے والد محکمہ پولیس میں  رہ کر ظالم کے خلاف مظلوم اورانصاف کیلئے خدمات انجام دیتے رہے وہ  میرے رول ماڈل بھی تھے۔میں ان کی شخصیت سے بے حد متاثر تھا۔
انہوں نے بتایاہے عزت او ر شہرت تو اللہ کی دین ہے۔یہ دونوں چیزیں انسان کو اپنی محنت کی وجہ سے ملتی ہیں۔اگر کوئی شخص اپنے پروفیشن اورڈیوٹی سے مخلص ہے تو اسے اللہ تعالی عزت اور شہرت دونوں سے نوازتا ہے۔ ہاں البتہ محکمہ پولیس میں رہ کر خدمت کرنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔ اسی وجہ سے میں اپنے پروفیشن سے مطمئن ہوں۔
ہمارے اس سوال پرکہ ضلع ننکانہ صاحب میںکونسا جرم زیادہ  ہوتا ہے۔ انہوں نے جواب  دیا ۔ننکانہ صاحب میں شہری ایریا کم اور دیہاتی علاقہ زیادہ ہے ۔اس لیے یہاں زیادہ جرم مویشی چوری کاہے۔راوی بیلٹ کے ساتھ ہے تھانہ بڑاگھر سیدوالہ مانگٹانوالہ اور منڈی فیض آباد میں ایسے پولیس ملازمین کو تعینات کیا گیا ہے جو مویشی چوری کی وارداتوں کو ٹریس کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔میں نے ان تھانوں کے SHO   صاحبان کو واضع طور پرحکم دے رکھا ہے کہ جس تھانہ کی حدود میں مویشی چوری کی واردات ہوئی اگر اس علاقہ کا SHO ایک ہفتہ کے اندر واردات کو ٹریس یا مویشی برآمد اور ملزمان کو گرفتار نہ کر سکا تو وہ خود کو نوکری سے فارغ سمجھے۔ 
 ہمارے اس سوال پر کہ خواتین اوربچوں کی حراستگی کے لیے ضلعی سطح پر آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں تو اس نوجوان پولیس  آفیسر نے بتایا کہ ہم نے خواتین کو معاشرہ میں جنسی اور مالی استحصال سے بچانے کے لیے ضلعی سطح پرایک سیل قائم کررکھاہے  جو کہ پنجاب بھر کے 36 اضلاع میں سے واحد ننکانہ صاحب میں قائم کیا گیا ہے جس کا نام ـــــ  جینڈررسپانسیو سیل  ہے۔اس سیل کی انچارج ایک منجھی ہوئی انسپکٹر لیول کی پولیس آفیسر شازیہ نور ہیں۔جبکہ اسکی ہمہ وقت نگرانی ہماری ایک اے۔ایس۔پی لیول کی پولیس آفیسر محترمہ صابرہ ایوب صاحبہ کرتی ہیں۔ کسی بھی زیادتی کی صورت میں فوری طور پر 15 کے ذریعے پولیس سے رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔
اس سوال پر کہ جرائم کے خاتمہ یا کمی کے لیے آپ پولیس کے کن اقدامات کو زیادہ موثر سمجھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ پولیس گشت،صرف پولیس کا رات کے وقت سڑکوں اور دیہاتی علاقوں میںگشت بہت ضروری ہے۔اسی گشت کے کرنے سے جرائم میں خاطر خواہ کمی ہوتی ہے۔اگر پولیس رات کو موثر گشت کرے تو روڈ ڈکیٹی کی وارداتیں 90 فیصد تک کم ہو جاتی ہیں۔ میں نے اپنے ضلع کی پولیس پرواضح کر رکھا ہے کہ گشت میں کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ میں خود روزانہ تما م رات گشت کرتا ہوں اور پولیس کو چیک کرتا ہوں۔ شہریوں کو بے فکری سے سلانے کے لیے پولیس کا رات بھر جاگنا ضروری ہے۔پولیس کا ''  رت جگا  '' ہی شہریوں کی میٹھی نیند کی ضمانت ہے۔ہمار اگلا سوال تھا کہ ضلع بھر سے منشیات کے خاتمہ کے لیے آپ کیا اقدامات کررہے ہیں۔تو انہوں نے گہری سنجیدگی سے جواب دیا۔ منشیات کی دستیابی اوراستعما ل ایک سنجیدہ قومی مسئلہ ہے۔منشیات ایسا زہر ہے جو انسان کے وجود کو اند ہی اند ر کھوکھلا کر دیتا ہے۔ایک منشیات فروش چند روپوں کے عوض ایک پورے خاندان کو زندہ در گور کر دیتا ہے۔ پولیس تنہا اس عفریت سے چھٹکارہ نہیں حاصل کر سکتی۔ضروری ہے کہ قوم کے با شعور لوگ، علمائے کرام ،اساتذہ ،طالب علم  اور عوامی نمائندے منشیات کے خلاف مہم چلائیں۔پولیس اگر کسی منشیات نوش سے نرمی برتے تو وہ قابل برداشت ہے لیکن اگر پولیس نے کسی منشیات فرو ش کو چھوڑا تو اسے معاف نہیں کیاجائے گا۔ میری عوام سے بھی گزارش ہے کہ وہ پولیس کو منشیات فروشوں کے بارے میں آگاہ کرے ۔ہمارے اس سوال پرکہ سیاسی شخصیات اور با اثر افراد کی مداخلت سے  محکموں کوشواری پیش آتی ہے۔انہوں نے  بتایاسیاست دان اپنی مجبوریوں کے سبب کیسز اور مقدمات میں سفارش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک اچھا پولیس آفیسر صرف میرٹ پر تفتیش کرتا ہے۔  میں ہر اہم کیس کی تفتیش سے آگاہ رہتاہوں۔ غلط تفتیش کرنے والے افسران کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔
فورس کے مورال سے متعلق ایک سوال  جواب میںانہوں نے بتایا کہ ضلعی پولیس کا سر براہ ایک با پ کی طرح ہے۔ مجھے اپنے تما م ماتحت اہلکار اپنے بچوں کی طرح عزیز ہیں۔ ان کی تکالیف اور مسائل کر کے اچھے کام کرنے والے اہلکاروں کو انعامات سے نواز جاتا ہے ۔شہیدفنڈ سے شہادت پانے والے اہلکاروں کے بچوں کی کفالت کی جاتی ہے۔ اہلکاروں کے بچوں کی شادیوں میں بھی محکمہ بھرپور تعاون کرتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن