پاکستان ہے تو ہم ہیں

اس وقت ملک کو دہشت گردی، معاشی مشکلات اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے چیلنجز کا سامنا ہے۔   یہ غیر معمولی حالات ہم سے  بابائے قوم کے قول کی روشنی میں اجتماعی حکمت عملی کا تقاضا کرتے ہیں  بقول قائد "آئیے ہم اپنے تمام وسائل کو مربوط اور منظم انداز میں استعمال کریں اور ایک عظیم قوم کی طرح عزم، استقامت اور نظم و ضبط کے ساتھ ان سنگین مسائل سے نمٹیں  جو ہمیں درپیش ہیں "   موجودہ غیر معمولی حالات سخت محنت، لگن اور ایماندارانہ روش کی تجدید عہد کا مطالبہ کرتے ہیں۔  یہ وقت آگے بڑھنے کا ہے نہ کہ پچھتانے کا  اور نہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کا۔ ہم نے جو کھویا ہے اسے واپس نہیں لایا جا سکتا لیکن درپیش معاشی مسائل کو منظم انداز میں کام کر کے حل کیا جا سکتا ہے۔معاشی بحالی میں ہمیں اپنے دوست چین سے سبق لینا چاہیے اور ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے ان کے کامیاب ماڈل پر عمل کرنا چاہیے۔  انہوں نے اسپیشل اکنامک زون قائم کرکے، سستی لیبر اور  سستی توانائی کی فراہمی کے ذریعے برآمدات بڑھائیں۔ ترقی کا ایک اہم جزو پالیسیوں کا تسلسل بھی ہوتا ہے۔  ترقی پذیر دنیا میں جب ایک بار کسی اقتصادی منصوبے پر عمل درآمد شروع ہو جاتا ہے، تو پھر کسی بھی حکومت کو  اسے تبدیل کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا ۔بدقسمتی سے پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ تاہم، موجودہ حکومت نے ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے اور اس کی کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ  بلومبرگ کی  رپورٹ کے مطابق، متحدہ عرب امارات، چین اور سعودی عرب نے ایک سال کے لیے قرضوں کو مؤخر کرنے پر اتفاق کیا۔ اس پیش رفت نے اگلے 7 بلین ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کے لیے راہ ہموار کر دی ہے۔   مذکورہ بالا کے علاوہ حکومت نے برطانیہ کے ماہرین کی مدد سے 5 سالہ منصوبہ بھی تیار کیا ہے اور اس پر عمل درآمد ، 14 اگست سے شروع ہوگا۔معاشی بحالی کے سفر کی طرف پیش قدمی جاری ہے۔ وزارت خزانہ کے اعدادوشمار کے مطابق جون کے مہینے میں زرمبادلہ کے ذخائر 9.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئے، اسٹاک ایکسچینج نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور مہنگائی کی شرح میں 12.6 فیصد کمی ہوئی۔  غیر ملکی ترسیلات زر اور آئی ٹی کی برآمدات میں 7.7 فیصد اضافہ $3 بلین سے زیادہ بھی دیکھا گیا ہے۔ اقتصادی طور پر بااختیار بنانے کے سفر میں، علاقائی رابطے کا اہم کردار ہے۔ خطے کا جغرافیائی محل وقوع ہمیشہ حکومت اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اولین ترجیح رہا ہے۔ خوش قسمتی سے، پاکستان ایک علاقائی پوزیشن پر واقع ہے جہاں CPEC جیسے اہم منصوبے گیم چینجر اور معاشی سرگرمیوں کا مرکز ثابت ہوں گے۔ اس خطے میں کاروبار کے لیے بے پناہ امکانات ہیں لیکن معاشی منظرنامے کو تیز کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ کاروباری روابط کو بڑھانا ضروری ہے ۔  معیشت کی بہتری کے حوالے سے SIFC  کے ذریعے سے  2023-24 کے دوران برآمدات میں 10.54 فیصد کا ریکارڈ اضافہ اس کا ثبوت ہے۔  اس کے علاوہ ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کے لیے  معدنیات، توانائی کے شعبے، زراعت اور سیاحت کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو بے شمار اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ریاست مخالف عناصر کی جانب سے پراپیگنڈا مہم پہلے سے کشیدہ صورتحال کو مزید بھڑکانے کا سبب بنتی ہے۔آزادی کی اہمیت وہ لوگ بخوبی سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اسے مشقت اور بڑی قربانیوں سے حاصل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور ہمارے بہادر بیٹوں کی قربانیوں سے روئے زمین کی کوئی طاقت پاکستان کو خوشحالی، امن اور استحکام کی منزل تک پہنچنے سے محروم نہیں کر سکتی۔اس وطن کی خاطر قربانیاں دینے والے تمام شہیدوں اور غازیوں کو سلام جن کی قربانیوں کی بدولت آج ہم ایک آزاد وطن میں سانس لے رہے ہیں۔ بقول احمد ندیم قاسمی : 
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
 وہ فصل گل کہ جسے کبھی اندیشہ زوال نہ ہو

ای پیپر دی نیشن