قطر کے دارالحکومت دوحہ میں غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دو روزہ مذاکرات ختم ہو گئے ہیں، وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اس بار مذاکرات گزشتہ کئی مہینوں میں سب سے زیادہ نتیجہ خیز رہے، اگلے ہفتے یہ مذاکرات قاہرہ میں دوبارہ شروع ہوں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے مذاکرات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا کہ مشرق وسطیٰ میں اب کسی کو بھی ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جس سے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو نقصان پہنچے۔
انھوں نے کہا ’’کسی بھی فریق کو غزہ جنگ بندی ڈیل تک پہنچنے کی کوششوں کو کمزور نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ بائیڈن نے کہا کہ وہ امریکی وزیر خارجہ کو اسرائیل بھیجیں گے تاکہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے پر پیش رفت ہو سکے اور اسرائیل کے لیے امریکی صدر کی ’فولادی حمایت‘ کی یقین دہانی کرائی جا سکی۔
جو بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے بارے میں ’’پرامید‘‘ ہیں تاہم یہ مذاکرات اختتام تک پہنچنے سے ابھی دور ہیں، انھوں نے کہا کہ مذاکرات کے تازہ ترین دور کے بعد اب ہم جنگ بندی سے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکی صدر نے کہا ہو کہ ان کے خیال میں معاہدہ قریب ہے۔
دوحہ میں گزشتہ دو دنوں کے دوران جو شرائط طے کی گئی ہیں، ان پر عمل درآمد کا طریقہ کار کیا ہو، اس سلسلے میں تکنیکی ٹیمیں قاہرہ میں مل بیٹھنے سے قبل مزید کام کریں گی۔ عالمی میڈیا کے مطابق امریکا نے مذاکرات میں غزہ جنگ بندی سے متعلق نئی تجویز پیش کی ہے، امریکی تجویز گزشتہ ہفتے طے پانے والے معاہدے پر مبنی تھی، امریکی حکام کے مطابق مصر اور قطر نے جنگ بندی کی نئی تجویز کی حمایت کی ہے۔
حماس ان مذاکرات کا حصہ نہیں تھی تاہم قطری اور مصری حکام کے ساتھ رابطے میں تھی، بی بی سی کو حماس کی ایک سینیئر شخصیت نے بتایا کہ دوحہ مذاکرات کے نتائج کے بارے میں تحریک کی قیادت کو آج جو مطلع کیا گیا ہے، اس میں 2 جولائی کو جن نکات پر اتفاق کیا گیا تھا، ان پر عمل درآمد کرنے کا کوئی عہد شامل نہیں ہے۔