حافظ سعید سے ملاقات اور دفاع پاکستان کونسل کا مارچ


پاکستان میں حصول اقتدار کی کشمکش اور آزادی کشمیر کی کاوش دو متضاد چیزیں لگنا شروع ہو گئی ہیں۔ بدقسمتی سے کبھی کبھی نظریہ پاکستان کی حقیقت اور کچھ سیاستدانوں کی سیاست کی حقیقت میں بھی تصادم نمایاں دکھائی دینے لگا ہے۔
بحیثیت پاکستانی، میں اکثر سوچتا ہوں کہ آنے والے دنوں میں اساتذہ علمائے کرام، دانشور طبقہ اور سنجیدہ سیاستدانوں کی ذمہ داریاں بہت زیادہ بڑھ جائیں گی۔ نئی پود کی تربیت سازی کے لئے بہت ضروری ہو جائے گا کہ ان کے دلوں کے اندر نظریہ پاکستان کے دیپ جلتے رہیں۔ اگر وہ بجھ گئے تو قیامت ہو گی۔ نئی نسل کے دماغوں میں یہ بھی رہنا ضروری ہے کہ پاکستان کے دشمن کچھ بھی الزام دھریں، را، موساد اور سی آئی اے جو بھی گل کھلائیں، پاکستان کی بین الاقوامی اہمیت و افادیت کم ہونے کے بجائے اس لئے بڑھتی جائے گی کیونکہ یہ جغرافیائی چوک کے ساتھ ساتھ عالم کا فکری چوک بھی ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں کسی ایک فرد یا کسی ایک سیاستدان یا کسی ایک سائنسدان کا عمل دخل نہیں ہے بلکہ ایک فکر کا عمل دخل ہے۔ یہ فکر نظریہ اسلام و نظریہ پاکستان کی فکر تھی۔
نظریاتی نمو اور نشوونما کے لئے مخصوص ماحول، مخصوص تربیت سازوں اور مخصوص نفسیات کا ہونا ضروری ہے۔ یہ رب کعبہ کا فضل ہے کہ پاکستان میں نظریہ پاکستان کی فکری آبیاری اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے خون جگر کی آبیاری کے لئے لوگ ہر لمحہ تیار بیٹھے ہیں۔ بگاڑ کے کھلے دریچوں میں بناﺅ والوں کو تندرست و توانا دیکھ کر اور مقابلے کے لئے تیار پا کر خوشی ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں جماعت الدعوة کے سربراہ، مجاہدین کی دل کی دھڑکن، حب الوطنی اور فکر کی تازگی سے مالا مال حافظ محمد سعید سے ایک خصوصی نشست کا موقع ملا۔ اس ملاقات میں تحریک حریت قرآن اور تحریک رسالت کے رہنما مولانا امیر حمزہ کے علاوہ دفاع پاکستان کونسل ہی کے سفیر نہیں بلکہ پاکستانی سرحدوں کے نظریاتی سفیر یحییٰ مجاہد بھی موجود تھے۔ گفتگو کا آغاز ہی حافظ سعید نے روزنامہ نوائے وقت اور مجید نظامی کی خدمات اور نظریاتی پختگی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ڈھیر سی دعاﺅں سے کیا۔ یہ وہ موقع تھا جس پر میں نے اندر ہی اندر اللہ کا شکر ادا کیاکہ مولا تیرا شکر ہے کہ مجھے ایک طرف سے آپ نے نظریاتی پلیٹ فارم عطا کیا ہے اور مجید نظامی جیسی قیادت کی سپرویژن عطا کی ہے اور دوسری طرف حافظ سعید جیسے لوگوں سے ہم کلام ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ سب کچھ میری پاکستانی نفسیات اور دینی جذبات کوری چارج کر دیتا ہے۔
حافظ سعید کی ٹیم اس وقت 16دسمبر کے مارچ اور تحریک آگاہی و بیداری انتظامات کے لئے مصروف عمل تھی۔ مسجد شہداءلاہور سے واہگہ بارڈر تک مارچ کے انتظام و انصرام کو آخری شکل دی جا رہی تھی۔ اس میں جماعت اسلامی، مولانا سمیع الحق، جنرل (ر) حمید گل، صاحبزادہ ابوالخیر وغیرہ بھی شریک ہیں۔ بہرحال دوران گفتگو راقم نے یہ محسوس کیا کہ حافظ سعید اپنے مشن، مقصد اور نصب العین کے حوالے سے بہت زیادہ خالص ہیں۔ ان سے متعدد سیاسی و غیرسیاسی، خارجی و داخلی معاملات میں اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے وہ خیالات جو بھارت اور امریکہ کے حوالے سے ہیں وہ اس قدر سیدھے، سادہ اور دوٹوک ہیں کہ ان سے اختلافات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آزادی کشمیر کے حوالے سے اور بھارتی کلاکاریوں و قلابازیوں کے بارے میں جمعرات کو شائع ہونے والے نوائے وقت کے اداریے میں بہت زیادہ ہم آہنگی دکھائی دے رہی تھی۔ اتفاق ہے کہ یہ اداریہ پڑھنے اور جذب کرنے کے بعد میری ملاقات حافظ محمد سعید سے ہوئی تاہم بعد از ملاقات مغرب کے بعد میں نے پھر وہ اداریہ پڑھا۔ میرا خیال کچھ اور لکھنے کا تھا لیکن اس نظریاتی ملاقات اور فکری اداریہ نے ایسے جیسے مجھے جکڑ لیا اور قلم پر کمانڈ حاصل کر لی۔ ایک بات ذہن نشین رہے کہ حافظ صاحب سے ملاقات کے دوران گفتگو آزادی کشمیر، بھارتی بدمعاشیوں اور امریکی خرمستیوں تک محدود رہی۔ ہاں اس پر اظہار افسوس بہت تھا کہ پاکستانی حکمران بھارت کے مظالم کو فراموش کرتے ہوئے کشمیری قربانیوں اور کشمیریوں کے سینے چھلنی کرنے والے آتش و آہن کو نظرانداز کرتے ہوئے اور پھر معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈیم بنانے، پاکستان کے پانیوں کی روانی اور فراوانی پر قبضہ جمانے کے بین الاقوامی جرائم اور انسان دشمنی کے کھلم کھلے افعال کو بھول کر اس سے محبت کی پینگیں بڑھانے اور تجارت کے لئے فریفتہ ہوئے جا رہے ہیں۔ یہ پاکستان اور پاکستانیت کے لئے نفسیاتی، معاشی، معاشرتی اور نظریاتی اعتبار سے غلط ہے۔ حکمرانوں کو کچھ خیال کرنا ہو گا۔ بھارت روزانہ بلاناغہ پاکستان کو کسی نہ کسی طریقے سے للکارتا رہتا ہے۔ کشمیر میں خون کی ندی کبھی خشک نہیں ہوتی۔
حافظ سعید کا پیغام تو آزادی کشمیر اور را و موساد اور سی آئی اے سے نجات ہے۔ حافظ سعیدکی جو بڑی خوبی نوٹ ہوئی وہ یہ کہ وہ مسلکی اختلاف کو زیربحث نہیں لاتے۔ وہ سیاسی ذائقے اور چسکے سے بھی بے نیاز ہیں۔ وہ تو آزادی کشمیر کا علم اٹھائے ہوئے اور امریکی غلامی سے نجات کے بعد اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی کی خودمختاری کے خواہاں ہیں۔ وہ حصول انصاف کی تمنا کے لئے ہر عدالت اور ہر فورم پر دلائل اور حقائق بیان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ سچ تو یہی ہے کہ حقوق انسانی کی بات کرتے ہوئے اور پاکستان کی ترجمانی کی بات کرتے ہیں۔ وہ تفریق بتاتے ہیں کہ کرگس کا جہاں اور ہے اور شاہیں کا جہاں اور۔ ہاں ان کے انداز تکلم اور طریقہ کار سے معلوم ہوتا ہے کہ ملا کی اذاں اور ہے اور مجاہد کی اذان اور!!!
حافظ سعید کی ملاقات کے علاوہ جمعرات کے نوائے وقت کے اداریہ کا بھی تذکرہ ہوا۔ ملاقات کی بات تمام ہوئی تاہم اس کی تاثیر چلتی رہے گی۔ اسی تناظر میں اداریہ کے اعادہ کے بغیر شاید کم از کم آج میں نہ کالم ختم کر سکتا ہوں، نہ حوالہ چھوڑ سکتا ہوں:
”جب 1948ءمیں بھارت نے وادی کشمیر میں اپنی افواج داخل کیں تو قائداعظم نے پاکستان کی شہ رگ بچانے کیلئے اس وقت کے انگریز کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو کشمیر پر چڑھائی کرنے کا حکم دیا جس کی تعمیل کر لی جاتی تو اسی وقت کشمیر کا تصفیہ ہو جاتا اور کشمیری عوام کو اپنی آزادی کے لئے جانی اور مالی قربانیوں سے لبریز طویل اور صبر آزما جدوجہد کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔“

ای پیپر دی نیشن