اسلام آباد (آئی این پی+ ثناءنیوز) سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس میں متحد ہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے سے متعلق اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں الطاف حسین کی تقریر کے بعض مندرجات کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا گیا ہے بظاہر الطاف حسین کی تقریر کے متذکرہ بالا مندرجات جن میں عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحِبان کو دھمکایا گیا، عدالت کے معاملات میں مداخلت اور مزاحمت کے مترادف ہیں اور اِن میں ججوں کے لئے نفرت، تضحیک اور توہین کا عنصر موجود ہے، مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 204 ہمراہ توہین عدالت آرڈیننس دفعہ 3کے تحت الطاف حسین کو سمن جاری کرنے کی ہدایات کی کہ وہ عدالت کے سامنے بذاتِ خود پیش ہوں اور وضاحت کریں کیوں نہ اُن کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ اتوارکوجاری تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس اور بنچ کے دیگر دو ججوں کے دستخطوں کے بعد جاری کیا گیا۔ اس کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس انور ظہیر جمالی نے کی۔ 11 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا عدالتِ ہذا کے رجسٹرار آفس نے ہماری توجہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما الطاف حسین کی 2 دسمبر کو کی گئی تقریر کی جانب دلائی جو انہوں نے بہت بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کی، جس میں سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کے بارے مےں نامُناسب الفاظ اور تاثرات کا استعمال کےا گےا۔ کراچی میں موجودہ امن و امان کے تناظر میں عدالتِ ہذا نے مقدمہ وطن پارٹی بنام فیڈریشن آف پاکستان کے فیصلے مورخہ 13 دسمبر میں حالات و واقعات جن کی بناءپر کراچی کے شہریوں کی جان و مال غیر محفوظ تھیں کا گہرا جائزہ لیتے ہوئے کچھ ہدایات جاری کی تھیں جن میں سے ایک بغرضِ حوالہ درج ذیل ہے۔ ”مزید مشاہدہ کیا جاتا ہے سیاسی چپقلش سے گریز کے لئے اور فرقہ وارانہ فسادات اور باہمی جھگڑوں کے زور کو توڑ نے کے لئے انتظامی اداروں جیسے کہ تھانوں اور ریونےو محالات وغیرہ کی حد بندیوں میں ترامیم کی جانی چاہئیں تاکہ مختلف طبقوں کے افراد باہمی طور پر امن و آشتی سے رہ سکیں چہ جائےکہ مختلف گروہوں کو یہ اختیارات دئیے جائیں کہ وہ کِسی مخصوص علاقے کو اپنی ملکیت قرار دیں اور کچھ علاقوں کو اپنے دہشت ناک دباﺅ کی بدولت ممنوع علاقہ قرار دی دیں۔ بعد ازاں انہی خطوط پر کراچی جو کہ پاکستان کا اقتصادی اور تجارتی گڑھ اور پاکستان کا چہرہ تصّور کےا جاتا ہے کو مستقبل قریب میں پُرامن شہر بنانے کی غرض سے متعلقہ قوانین کی روشنی میں اِسی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مختلف عِلاقوں کی نئی حدود بندیاں عمل میں لائی گئیں، خاص طور الیکشن کمیشن اِس سلسلے میں کام شروع کر چُکا ہے۔ فیصلے کے مطابق یہ بات قابلِ غور ہے مذکورہ بالا فیصلہ قابلِ قبول تھا کیونکہ فیصلہ میں دی گئی ہدایات کے خِلاف کوئی درخواست نظرثانی نہیں دائر کی گئی ۔مذکورہ فیصلے میں ایک مکمل طریقہ کار متعارف کروایا گیا تاہم بعد ازاں یہ بات مشاہدے میں آئی منجملہ اور چیزوں کے مذکورہ بالا ہدایات پر خاطر خواہ وقت گزر جانے کے باوجود عمل در آمد نہیں کیا گیا لہٰذا مختلف مواقع پر مقدمے کی سماعت فیصلے پر عمل در آمد کی غرض سے کی گئی مورخہ 28 دسمبر کو عدالتِ ہٰذا کے ایک بینچ نے الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کیں وہ کراچی شہر کی نئی حدود بندیوںکا کام اپنے ہاتھ میں لے لے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 204 ہمراہ توہین عدالت کے قانون مجریہ 2003ءکی دفعہ 3 کے تحت فوجداری (حقیقی) درخواست نمبر 96/2012 کے مسﺅل علیہان کو سمن جاری کرنے کے احکامات جاری کئے جاتے ہیں کہ وہ عدالت میں پیش ہوں اور وضاحت کریں کہ وطن پارٹی کے مقدمے میں دیئے گئے فیصلے پر عمل درآمد میں ناکام رہنے پر کیوں نہ ان کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ مقدمے کی سماعت 7 جنوری 2012ءتک ملتوی کی جاتی ہے۔