لاہور (نوائے وقت رپورٹ) نوائے وقت گروپ کے ایڈیٹر انچیف مجید نظامی نے سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے کہا ہے کہ صحافی عباس اطہر نے اپنے اخبار میں ”ادھر ہم ادھر تم“ کی سرخی لگائی جس کا مطلب تھا کہ بھٹو کہتے تھے کہ ”ادھر ہم ادھر تم“ دنیا ٹی وی کے پروگرام تلاش میں گفتگو کرتے ہوئے مجید نظامی نے کہا کہ سرخی کو دیکھیں تو کسی نے اگر درست طور پر وہ الفاظ نہ بھی کہے ہوں تو سرخی سے ظاہر ہوتا ہے کہ الفاظ میں سے سرخی نکال سکتے ہیں اگر نہ ہوں تو وہ سرخی نہیں نکال سکتے۔ بنگلہ دیش بنانے میں بھٹو کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا مجیب کا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ذوالفقار علی بھٹو سے دوستی اور بے تکلفی تھی لندن میں میرا قیام 6 سال رہا اس وقت وہ وزیر تھے جب وہ وزیراعظم بنے تو ان سے وزیراعظم ہاﺅس میں ملاقات ہوئی اس وقت وہ فضل الہی ہاﺅس تھا۔ مجید نظامی نے کہا کہ بنگلہ دیش بھارت کا اس طرح دوست نہیں بن سکا جس طرح بھارت کا خیال تھا نہ ہی وہ بھارت کا حصہ بنا، بنگلہ دیش بھی بھارت کو اپنا دوست نہیں سمجھتا اگر پاکستان کوشش کرے، بنگلہ دیش کے طلبا بلائیں اور وظائف دیں، طلبا کو پڑھائیں، دوستانہ تعلقات اور جذبات پیدا ہوں تو میرا خیال ہے کہ ہم آہستہ آہستہ کنفیڈریشن کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ سے ہم نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اگر ہم نے سبق حاصل کیا ہوتا تو آج جو حالات بلوچستان میں ہیں وہ ہوتے اور نہ ہی ایسے حالات خیبر پی کے میں ہوتے ولی خان کا بیٹا اور باچا خان کا پوتا کہہ رہا ہے کہ اردو ہماری زبان نہیں اس سے اندازہ لگا لیں کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔ مرکز میں بھی کوئی لیڈر شپ نہیں جو انہیں سمجھائے یا بات کرے ہم نے ان کو خوش رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے خان آف قلات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مجھ سے کہا نظامی صاحب میرا ایک کام کریں میں نے کہا فرمائیے، کہنے لگے میں نے اپنی ریاست تو پاکستان کو دیدی، ساری آمدن ان کے پاس ہے، میرے جو قبائلی ہیں ان کو میں وظیفہ دیتا ہوں، مہنگائی بہت ہو گئی ہے، وظیفہ ناکافی ثابت ہو رہا ہے، دو تین ہوٹل ایسے ہیں جس کا میں مالک یا ڈائریکٹر تھا، آپ جنرل ضیاءالحق سے کہیں کہ ایک ہوٹل مجھے دیدیں، لاہور یا اسلام آباد میں سے کوئی دیں میں نے ضیاءالحق سے بات کی مگر یقین کریں کہ ضیاءالحق نے بات سنی ان سنی کر دی۔