بھارت کی چار ریاستیں، راجستھان، مدھیہ پردیش، دہلی اور چھتیس گڑھ اس ملک کی سیاست میں نمایاں اہمیت رکھتی ہیں۔ ان ریاستوں میں حالیہ انتخابات کے نتائج 8 دسمبر کو سامنے آئے تو پورے بھارت کا سیاسی منظر لرزا براندام ہوگیا۔ وجہ یہ کہ ان انتخابات کے نتائج اتنے غیر متوقع تھے کہ بھارت کی سیاسی جماعتوں اور ان کے راہنماﺅں کی سیٹی گم ہوگئی۔ ملک کی حکمران جماعت کانگرس کو نہ صرف شکست کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بھارت کی انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی ان انتخابات سے اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھر آئی۔ بی جے پی ریاستی اسمبلی کی پانچ سو نوے (590) نشستوں میں سے دوتہائی جیت چکی ہے اور اب یہ توقع کر رہی ہے کہ وہ مئی 2014ءکو لوک سبھا انتخابات میں بھی کانگرس کو شکست دے گی اور اس کا لیڈر نریندر مودی جسے ستمبر 2013ءمیں وزیراعظم کے عہدے کے لئے نامزد کیا جا چکا ہے، دنیا کی سب سے بڑی (نام نہاد) جمہوریت کے اقتدار سنگھاسن پر بیٹھ جائے گا۔ اتوار 8 دسمبر کو جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کے مطابق راجستھان کی 199 ریاستی نشستوں میں سے بی جے پی 162 اور کانگرس نے صرف 21 نشستیں حاصل کیں۔ مدھیہ پردیش کی 230 میںسے بی جے پی 165 نشستوں پر جبکہ کانگرس 58 پر کامیاب ہوئی، چھتیس گڑھ کی 90نشستوں میں سے بی جے پی 49 پر کامیاب ہوئی جبکہ کانگرس کے لئے 39 نشستوں کا حصول ممکن ہوا۔ دارالحکومت دہلی میں بھی بی جے پی 70 میں سے 31نشستیں لے کر سب سے آگے رہی، کانگرس صرف آٹھ نشستیں حاصل کرسکی، جبکہ پورے ملک کو یہ حقیقت حیران کر گئی کہ صرف ایک سال قبل معرض وجود میں لائی جانے والی ”عام آدمی پارٹی“ نے دہلی اسمبلی کی 28 نشستیں جیت لیں، کانگرس اور بی جے پی بھارت کی دو بڑی پارٹیاں ہیں لیکن دونوں کا مزاج مختلف ہے۔ کانگرس ہندوستان کو آزادی دلانے والی جماعت ہے جو متحدہ قومیت کے نام پر اقلیتوں کو اور بالخصوص بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کوچکمہ دے کر اپنے ساتھ ملائے رکھنے کی سعی کرتی ہے۔ یہ جماعت سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اس کی دا خلی پرورش ”پاکستان دشمنی“ پر ہوئی ہے۔ اس نے دو قومی نظریے کی اساس پر پاکستان کی تشکیل کو ہمیشہ نفرت کی آنکھ سے دیکھا اور ہندوستان کی تقسیم کو ”گاﺅ ماتا“ کے ٹکڑے کرنے کے مترادف قرار دیا اور اکھنڈ بھارت کا خواب ہر دور میں زندہ رکھا۔ دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی ایک انتہا پسند فرقہ پرست جماعت ہے جس کی عسکریت پسندی میں ہندوستان سے مسلمانوں کا قلع قمع کرنا اور پاکستان کو پھر بھارت کا حصہ بنانا شامل ہے۔ چنانچہ مسلم کش فسادات کرانا اس جماعت کے سیاسی ایجنڈے میں شامل ہے۔ نریندر مودی اس جماعت کا ہی نمائندہ لیڈر ہے جس نے گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت میں فرقہ واریت کو فروغ دیا اور منظم منصوبہ بندی سے بھارت کے مختلف مقامات پر ایسے فسادات کرائے جن میں ہزاروں مسلمان بے دردی اور بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ چار ریاستی انتخابات میں بی جے پی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری ہے (کانگرس کو ایک چھوٹی ریاست میزورام میں کامیابی ہوئی ہے لیکن غیر اہم ہے کیوں کہ لوک سبھا میں اس ریاست کی صرف ایک نشست ہے) لیکن بی جے پی کو ملک کی مقبول جماعت قرار دینا ممکن نہیں۔ آزادی کے بعد گزشتہ 66 برسوں میں بی جے پی نے صرف چھ سال (1998-2004ئ) حکومت کی۔ اس دور میں بی جے پی میں اٹل بہاری باجپائی اور ایڈوانی جیسے آل انڈیا سطح کے لیڈر موجود تھے جنہیں بھارت کی حکومتی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع ملا تو انہوں نے اپنی فرقہ پرستی اور ہندوتوا کے جذبات کو بے لگام نہ ہونے دیا۔ باجپائی وزیراعظم کی حیثیت میں پاکستان آئے تو مینار پاکستان پر حاضری دی، پاکستان کے وجود کا اعتراف کیا اور ”اعلان لاہور“ بھی کیا۔ ایل کے ایڈوانی نے پاکستان یاترا میں قائداعظم کے مزار پر حاضری دی اور پھر بھارت کے انتہا پسند، فرقہ پرست پریس کی کڑی تنقید کا سامنا بھی کیا۔ لیکن بی جے پی کی چھ سال کی حکومت چنداں قابل ذکر نہیں اور ”وال سٹریٹ جرنل“ نے تو لکھا ہے کہ ”بی جے پی شمالی اور مغربی بھارت میں تو مضبوط ہے لیکن جنوبی بھارت میں کمزور ہے اور مشرقی بھارت میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ مزید برآں قومی ووٹوں میں بی جے پی کا حصہ کم ہوتا جا رہا ہے اور وال سٹریٹ جرنل نے تو نریندر مودی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بطور وزیراعظم اپنی حلف برداری کی تقریب کیلئے بند گلے کی واسکٹ سلوانے کا آرڈر دینے سے گریز کریں۔“
سوال پیدا ہوتا ہے کہ قریباً دس سال حکمرانی کرنے کے بعد کانگرس پارٹی ریاستی انتخابات میں ناکام کیوں ہوئی؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ کانگرس کا دھرن تختہ غریب عوام نے کیا ہے جو گرانی کے چکر میں مسلسل پسے جا رہے تھے۔ کرپشن کے ستائے ہوئے تھے اور جان و مال کے تحفظ سے محروم غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا شکار تھے۔ ایک بھارتی اخبار نے لکھا ہے کہ کانگرس کو آلو اور پیاز کی مہنگائی لے ڈوبی ہے۔ بھارت کی کرپشن اور اشیائے صرف کی ناقابل برداشت گرانی سے ہی ”عام آدمی پارٹی“ ابھری ہے۔ سونیا گاندھی نے اپنے بیٹے راہول گاندھی کو بھارت کا اگلا وزیراعظم بنوانے کا عزم کر رکھا ہے لیکن راہول گاندھی ریاستی انتخابی مہم میں عوام کو نہ مطمئن کر سکے اور نہ اپنی شخصیت سے متاثر کرسکے۔ پاکستان کی پیپلزپارٹی کی طرح وہ بھی اپنے خاندان کی قربانیوں کا ذکر کرتے رہے لیکن عوام کی خدمت کا خانہ خالی تھا اور ”بے نظیر بھٹو سپورٹ“ پرو گرام کی طرح بھارت میں پانچ کلو چاول یا گندم ارزاں قیمت پر فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا جس کا فائدہ صرف کانگرس کے پسندیدہ لوگوں نے اٹھایا اور بدعنوان تقسیم کاروں نے اس میں بھی کرپشن کی راہیں تراش لیں۔ بھارت کی 120 کروڑ کی آبادی میں سے 81کروڑ افراد غذا سے محروم ہیں۔ گزشتہ دس برسوں میں کانگرس کی حکومت طرح طرح کے سکینڈلوں اور قومی خزانے کی لوٹ مار میں ملوث رہی اور اب بھارت کے بھوکے عوام نے اس پارٹی کو مسترد کردیا ہے۔ اگرچہ ”عام آدمی پارٹی“ کو پورے بھارت میں متعارف نہیں کرایا جاسکا لیکن راجدھانی دہلی میں 28 نشستیں جیت کر اور تین انتخابات میں کامیاب ہونیوالی وزیراعلیٰ شریمتی شیلا ڈیکشٹ کو شکست سے دوچار کرکے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے اور اس پارٹی کے مستقبل کو بھی ”نوشتہ دیوار“ بنا دیا ہے۔ بھار ت میں کانگرس کی شکست پاکستان کے حکمرانوں کے لئے بھی لمحہ¿ فکریہ ہے۔ عوام پی پی پی کو مسترد کرنے کے بعد اب میاں نوازشریف اور مسلم لیگ سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔
بھارت کے ریاستی انتخابات میں کانگرس کی شکست
Dec 17, 2013