شہر کی ٹریفک

Dec 17, 2013

خواجہ عبدالحکیم عامر....سچ ہی لکھتے جانا

کسی ملک اور اس کی عوام کے ڈسپلن کا اندازہ لگانے کے لئے وہاں کا نظام ٹریفک دیکھا جاتا ہے یہ پاکستان اور پاکستانی عوامی کی بدقسمتی ہے کہ ہمارا شمار غیر منظم عوام میں ہونے لگا ہے۔ میں اس بات سے اتفاق کرنے سے معذرت چاہوں گا کہ ٹریفک کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی ذمہ دار صرف ٹریفک پولیس ہے۔ میں مانتا اور جانتا ہوں کہ لاہور شہر کی اکثر اہم شاہراہیں ٹریفک جام کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں جس کے باعث عام شہریوں کو ہی پریشانی کا سامنا کرنا نہیں پڑتا بلکہ اکثر اوقات ایمبولینسز کو راستہ نہ ملنے کے باعث مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں دم توڑ دیتے ہیں۔ سکولوں کے بچے ٹائم پر پہنچ نہیں پاتے۔سرکاری نیم سرکاری و پرائیویٹ ملازم پھنسی ہوئی ٹریفک کے باعث روزانہ لیٹ ہو جاتے ہیں۔ 1122 سروس بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ جس حکمران نے بھی وارڈنز کا نظام متعارف کروایا تھا۔ قابل تعریف ہے ٹریفک وارڈنز نے ابتدائی چند سال نہایت ایمانداری کے ساتھ فرائض انجام دئیے جس کا اندازہ سڑکوں کودیکھ کر لگایا جاتا رہا ہے۔ اس ضمن میں ایک خاص بات نوٹ کی گئی تھی کہ ٹریفک وارڈنز رشوت نہیں لیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگوں کو من مانی کرنے کی اجازت نہیں تھی جبکہ وارڈنز نظام آنے سے پہلے ٹریفک پولیس حرام خوری میں بری طرح لتھڑ چکی ہوئی تھی ٹریفک وارڈنز نے ابتدائی چند سال خود کو حرام کی کمائی سے دور رکھا اسکی وجہ شاید یہ تھی کہ حکومت نے وارڈنز کی تنخواہویں معقول مقرر کی تھیں مگر مہنگائی کی بڑھتی ہوئی لہر نے وارڈنز کو بھی چھینا جھپٹی پر مجبور کر دیا اور یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جا سکتی ہے کہ آج ٹریفک وارڈنز بھی رشوت کی دلدل میں دھنس چکے ہیں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرنے لگے ہیں۔ میں نے کئی بار طبقہ اشرافیہ کے شہزادوں کو قانون کی خلاف ورزی کرنے سے روکنے کے جرم میں وارڈنز کو ذلیل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ نڈر اور بے لگام شہزادے سرعام ٹریفک قوانین کو پامال کرنے کی ہمت و طاقت رکھتے ہیں۔ ون ویلنگ ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں سرخ اشارے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ کاٹتے ہیں۔ پہلے پہل چند نوجوان وارڈنز نے ان شہزادوں کو روکنے کی کوشش کی تھی لیکن اپنا انجام دیکھ کر انہوں نے شائد درست فیصلہ کیا ہے کہ ان منہ زور شہزادوں کوان ہی کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ چند سال پہلے تک ویگنوں کو ٹریفک کا گند کہا اور سمجھا جاتا تھا۔ وہ ان ویگنوں کے باعث شہر کی ٹریفک بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔ کئی راہ گیر روزانہ ان قاتل ویگنوں کی زد میں آ کر زخمی ہو جاتے یا مر جاتے تھے۔ ویگنیں ختم یا کم ہونے کے باعث لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہی تھا کہ چنگ چی نامی ایک بلاسڑکوں پر نازل ہو گئی جس نے ایسا طوفان بدتمیزی بپا کر رکھا ہے جسے دیکھ کر شیطان میں بھی پناہ مانگتا ہوگا۔ چنگ چی رکشوں کو شہر کی سڑکوں پر چلتا ہوا دیکھ کر قانون کے رکھوالوں کی جانوں کا سیاپا کرنے کو دل چاہتا ہے۔ مجھے کہنے دیجیئے کہ جو آج کل چنگ چی چلا رہے ہیں ٹریفک لائسنس اور قوانین سے بے نیاز ہیں۔ دیہاڑی لے کر یا دے کر رکشے چلاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کروڑوں اربوں روپے لگا کر میٹرو بس سروس شروع کی۔ امید کی جا رہی تھی کہ اس سروس کے اجراء کے بعد ٹریفک کی سنگین صورتحال بہتری کی طرف گامزن ہو جائے گی۔ مگر افسوس کہ شہر کی ٹریفک روز بروز آئوٹ آف کنٹرول ہوتی جا رہی ہے اور یہ سب کیا دھرا صرف ٹریفک پولیس کا نہیں بلکہ اس افسوسناک صورتحال کے ذمہ دار ہم سب ہیں ہم سب میں محکمہ ماحولیات و ٹرانسپورٹ شامل ہیں۔ بیورو کریسی و افسر شاہی کی بگڑی ہوئی اولاد بھی ذمہ دار ہے۔ ٹریفک کی موجودہ صورتحال حکمرانوں خاص کر جناب شہباز شریف کیلئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ وہ جس لاہور کو پیرس بنانے کے خواب دیکھتے رہے یا اب بھی دیکھ رہے ہیں۔ یہاں کی ٹریفک ان کے خوابوں کو پورا نہیں ہونے دیگی۔ 

مزیدخبریں