لاہور (خصوصی رپورٹر) تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن، ممتاز صحافی اور چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش انشاء اللہ ایک دن ضرور دوبارہ پاکستان کا حصہ بنے گا۔ ہمارا جو حکمران بھات کے بارے میں سافٹ کارنر رکھے اس کو پاکستان پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان، شاہراہ قائداعظمؒ لاہور میں یوم سقوط ڈھاکہ کے موقع پر منعقدہ فکری نشست بعنوان ’’یوم سقوط ڈھاکہ… محرکات و اثرات‘‘ کے دوران اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ اس نشست کا اہتمام نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ اس موقع پر تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین کرنل (ر) جمشید احمد ترین، صدر سی پی این ای مجیب الرحمن شامی، سجادہ نشین آستانہ عالیہ چورہ شریف پیر سید محمد کبیر علی شاہ، قیوم نظامی، ونگ کمانڈر (ر) محمد ظفر، کرنل (ر) زیڈ آئی فرخ، ملک محمد حسین، ڈاکٹر رضوان اللہ کوکب، ڈاکٹر ایم اے صوفی، بیگم مہناز رفیع، صوبائی پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد ارشد، بیگم ثریا کے ایچ خورشید، بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف، حسن فاروق، پروفیسر محمد مظہر عالم، شہزاد خان، ڈاکٹر پروین خان، فاروق خان آزاد، چودھری ناصر علی، میاں ابراہیم طاہر، مولانا محمد شفیع جوش، چودھری نعمان، انجینئر محمد طفیل ملک، چودھری ریاض احمد، پروفیسر محمد جمیل بھٹی، خواجہ اظہر مجید، پروفیسر طاہرہ انجم، زرقا جاوید، صفدر علی، عبدالحمید کریمی، رحیم خان، سید نصیب اللہ گردیزی سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کثیر تعداد میں موجود تھے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک، نعت رسول مقبولؐ اور قومی ترانے سے ہوا۔ تلاوت کی سعادت حافظ امجد علی نے حاصل کی جبکہ جسٹس (ر) منیر احمد مغل نے بارگاہ رسالت مآبؐ میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا۔ نشست کی نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے انجام دئیے۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا کہ آج ہم بنگلہ دیش کو یاد کر رہے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں پاکستان کے حامی عبدالقادر ملاّ کو پھانسی دیدی گئی ہے جبکہ ان کے دیگر ساتھیوںکو بھی لپیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1965ء کی جنگ میں‘ مَیں آغا شورش کشمیری مرحوم کے ساتھ کھیم کرن کے محاذ پر گیا اور وہاں بھارت کی طرف سے چھوڑ کر جانیوالے ایک ٹینک پر بیٹھ کر تصاویر بھی بنوائیں۔ یہ تصویر ’’چٹان‘‘میں چھپی اور اس کے نیچے لکھا تھا’’مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام‘‘۔ اس کا مطلب تھا کہ کھیم کرن بنگالی بھائیوں کی رجمنٹ نے فتح کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً دو ماہ قبل بھارت سے آئے ہوئے ایک لالہ جی صحافی میرے دفتر آئے اور ازراہ مذاق مجھ سے کہنے لگے کہ آپ اکثر ٹینک پر بیٹھ کر بھارت جانے کی بات کرتے ہیں تو کیا میں ایک ٹینک بھجوا دوں۔ میں نے کہا اس کی ضرورت نہیں‘ ہمارے پاس آپ کا ہی چھوڑا ہوا ایک ٹینک موجود ہے۔ میں نے لالہ جی کو وہ تصویر دکھائی جو میرے دفتر میں لگی ہوئی ہے۔ وہ تصویر دیکھ کر کہنے لگے کہ آپ بہت ظالم ہیں۔ میں نے کہا سب سے بڑا ظالم بھارت ہے جس نے پاکستان کو آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا، اس نے پہلے پاکستان کو آدھا کر کے بنگلہ دیش بنوایا اور اب باقی پاکستان کے پیچھے بھی پڑا ہوا ہے۔ بلوچستان میں پس پردہ وہ جو کچھ کر رہا ہے، وہ بھی سب کو پتہ ہے۔ میں نے ہمیشہ بھارت کو ازلی دشمن قرار دیا ہے۔ جب بنگلہ دیش بنا تو اندرا گاندھی نے کہا کہ ’’ہم نے نظریۂ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ہم نے اقلیت میں ہونے کے باوجود یہاں ایک ہزار سال تک حکومت کی ہے۔غوری اور غزنوی گھوڑوں پر بیٹھ کر ٹک ٹک کرتے سومنات پہنچ جاتے تھے اور کسی کو انہیں روکنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔آج ہمیں جذبے اور ایمان کی ضرورت ہے اور ہم انشاء اللہ اسی طرح بھارت کے سینے پر مونگ دلتے رہیں گے۔ بنگلہ دیش بنانے میں مکتی باہنی جو دراصل ہندو فوجیوں کی جماعت تھی‘ نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا بدقسمتی سے قیام پاکستان سے ایک سال بعد ہی قائداعظمؒ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے اگر اللہ تعالیٰ انہیں پانچ دس سال مزید زندگی دیتا تو نہ بنگلہ دیش بنتا اور نہ ہی پاکستان اس طرح کا ہوتا جیسے آج ہے۔ سجادہ نشین آستانہ عالیہ چورہ شریف پیر سید محمد کبیر علی شاہ نے کہا کہ مشرقی پاکستان کے لوگ احساس محرومی کا شکار تھے۔ مشرقی پاکستان کی عوام نے بھارت کو چھوڑ کر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا لیکن ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر جمہوریت کو اخلاص نیت کے ساتھ قبول کر لیا جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ تحریک پاکستان ورکرزٹرسٹ کے چیئرمین کرنل (ر) جمشید احمد ترین نے کہا کہ بنگالی ہم سے زیادہ مسلمان تھے۔ ہندو اساتذہ نے وہاں طلبہ کی ایسی برین واشنگ کی کہ وہ پاکستان کے مخالف ہو گئے تھے۔ سی پی این ای کے صدر و ایڈیٹر انچیف روزنامہ پاکستان مجیب الرحمن شامی نے کہا پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی تصنیف THE WASTE OF TIME اور اس کے اردو ترجمہ ’’شکست آرزو‘‘ جبکہ سرمیلا بوس کی کتاب ’’Dead Reckoning‘‘ کو پڑھ کر حقائق کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ سید سجاد حسین ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے انہوں نے یہ کتاب قید کے دوران لکھی تھی جو کئی برسوں بعد چھپی۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد ڈھاکہ میں قیامت کا منظر تھا۔ زبان کی بنیاد پر جنوبی ایشیا میں کوئی قوم نہیں بنی، لسانیت کی بنیاد پر بنگلہ دیش کا قیام پہلا تجربہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان میں پراپیگنڈا کی زبردست مہم شروع کی گئی اور کہا گیا کہ مغربی پاکستان والے مشرقی پاکستان کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ اسی مہم کا اثر تھا کہ شیخ مجیب کے مخالف عناصر بھی مغربی پاکستان کے خلاف نظر آتے تھے۔ آج بلوچستان کے بارے میں بھی اسی طرح کا پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ پاکستان نے بلوچستان کا بڑا استحصال کیا ہے لیکن قیام پاکستان کے بعد بلوچستان میں جو بہتری آئی ہے اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ عبدالقادر ملا کی پھانسی پر احتجاج کرے اور کم ازکم نرم الفاظ میں ہی اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کروائے تاکہ وہاں موجود متحدہ پاکستان کے حامیوں کو معلوم ہو کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر رضوان اللہ کوکب نے کہا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ملت اسلامیہ کی تاریخ کا بڑا المیہ تھا۔ اس المیے کی وجوہات اور محرکات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ میں اس سانحہ کو شکست نہیں بلکہ زوال سمجھتا ہوں۔ ملک محمد حسین نے کہا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار مغربی پاکستان والے بھی تھے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے بنگالی بھائیوں سے دوبارہ رشتے استوار کئے جائیں اور موجودہ صورتحال میں جب بھارت ان کو اپنی ریاست بنانا چاہتا ہے‘ ان کواس صورتحال سے بچائیں۔ کرنل (ر) زیڈ آئی فرخ نے کہا کہ ستمبر 1970ء میں مَیں ڈھاکہ میں موجود تھا اور وہاں ایک پریزینٹیشن کیلئے مجھے چند فائلیں مطالعہ کرنے کیلئے دی گئیں اور جوں جوں میں نے ان فائلوں کا مطالعہ کیا تواس میں موجود مواد کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ بنگلہ دیش تو بن چکا ہے۔ بنگالیوں کی آواز کو سنا نہیں گیا جسے سنا جانا چاہئے تھا۔ قیوم نظامی نے جناب ڈاکٹر مجید نظامی اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر اہم موقع پر نئی نسل کو حقائق سے آگاہ کرنے کیلئے ان کی کاوشیں قابل دید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 16 دسمبر 1971ء ہماری قومی تاریخ کا بد قسمت دن ہے کہ اس دن ہمارا ایک بازو یعنی مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا۔اس سانحہ کا تجزیہ کرتے وقت ہم نے عموماً سطحی رویہ اختیار کیا اور حقائق کو منظر عام پر لانے کی بجائے فرضی اور سنی سنائی باتوں پر انحصار کیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حقائق کو سامنے لایا جائے۔ ونگ کمانڈر (ر) محمد ظفر نے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت ہم نے اپنی جس منزل کا تعین کیا تھا جب ہم اس سے پیچھے ہٹ گئے تو مسائل نے جنم لینا شروع کر دیا۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ سے دور ہوئے تو سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ بنگالیوں کی حق تلفی کی گئی اور ہماری بیورکریسی، فوج اور سیاستدانوں نے انہیں ذلیل کیا۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے کہا کہ بنگلہ دیش میں آج ایک واضح اکثریت پاکستان کی حامی ہے۔ اگر بنگلہ دیش میں غیر جانبدار ریفرنڈم کروایا جائے تو وہ پاکستان کے حق میں فیصلہ دیں گے۔ بنگلہ دیش میں دوقومی نظریہ کا احیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی قیادت میں پاکستان بنگلہ دیش برادر ہڈ سوسائٹی قائم کی ہے جس کا مقصد دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور غلط فہمیاں ختم کرنا ہے۔ اس موقع پر شاہد رشید کی پیش کردہ قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا جس میں کہا گیا ہے کہ ہم بنگلہ دیش میں بھارت نواز حکمرانوں کی جانب سے متحدہ پاکستان کے حامیوں کیخلاف مقدمات اور انہیں سزائیں دئیے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیںکہ وہ کسی مصلحت کے بغیراس معاملے پر بھرپور صدائے احتجاج بلند کرے۔ پروگرام کے آخر میں پیر سید محمد کبیر علی شاہ نے ملّا عبدالقادر اور 1971ء کی جنگ کے دوران پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والے شہداء کی روح کی بلندیٔ درجات کے لئے دعا کروائی۔
بنگلہ دیش انشاء اللہ ایک دن ضرور دوبارہ پاکستان کا حصہ بنے گا ۔ ڈاکٹر مجید نظامی
Dec 17, 2013