4 حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق‘ تحریک انصاف کی درخواست سماعت کیلئے منظور‘ الیکشن کمشن 15 دن میں رپورٹ پیش کرے: سپریم کورٹ

Dec 17, 2013

 اسلام آباد (نیٹ نیوز +  آئی این پی +  نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب کے قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات سے ووٹوں کی تصدیق کرنے کی درخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے ا لیکشن کمیشن کو دو حلقوں این اے 125  لاہور ،  این اے 154 میں  لودھراں میں انگوٹھوں کی تصدیق کی رپورٹ پندرہ روز میں پیش کرنے کا حکم دے دیا  ہے۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان درخواستوں کی سماعت کا سپریم کورٹ مناسب فورم نہیں، آپ پاکستان کے شہری کی حیثیت سے یہاں پیش ہوئے ہم آپ کی عزت کرتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے درخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے  سکرٹری الیکشن کمیشن  سے  عدالتی حکم کے باوجود دونوں حلقوں میں تصدیق کاعمل مکمل نہ کرنے کے حوالے سے پیرا وائز جواب طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سر براہی میںسپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے چار حلقوں میں انگوٹھوں کی شناخت کے بارے میں دائر درخواست کی سماعت کی تو پا کستان تحریک انصاف کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل  میں کہا کہ عدالت  نے  شفاف انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا، نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کی گئی تھی، اس کیس میں درخواست گزار ہوں۔ عدالت نے نوٹس جاری کیا تھا۔ تمام سیاسی جماعتوں کا موقف سنا گیا تھا۔ تمام سیاسی جماعتیں عدالت میں آئیں۔ الیکشن کمیشن نے بھی درخواست کو قابل سماعت قرار دیا تھا جبکہ عدالت نے حتمی فیصلہ میں درخواست کو قابل سماعت قرار دیا۔  تفصیلی فیصلہ 8-6-12 کو  جاری کیا گیا۔ عدالت نے انتخابی عمل کو شفاف انداز میں مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ عدالتی فیصلے کے بعد ورکرز پارٹی نے نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی۔ نظر ثانی کے کیس میں تحریک انصاف نے بھی متفرق درخواستیں دائر کیں۔ عدالت میں نظر ثانی کی درخواست زیر التواء ہے جن میں عدالت سے اضافی ہدایت جاری کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔11 مئی 2013 کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہر سیاسی جماعت نے دھاندلی کے الزامات لگائے۔ دھاندلی سے سب سے زیادہ پی ٹی آئی متاثر ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چرایا گیا۔ عدالت کی طرف سے جو ہدایات جاری کی گئی تھیں ان کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ نادرا نے بعض جگہوں پر انگوٹھوں کی تصدیق کی  جہاں پر بہت سے ووٹ بوگس اور جعلی نکلے ہیں۔ چوہدری نثار کا بیان ہے کہ ہر حلقے میں 60 فیصد ووٹ ناقابل تصدیق ہیں۔ کراچی کے  حلقے 256 میں نادرا نے بتایا کہ 70 ہزار ووٹ جاری ہوئے جن میں سے60 ہزار ووٹ جعلی نکلے۔ صرف چار حلقوں میں دوبارہ تصدیق کی درخواست کی گئی ہے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ کیا آپ نے چار حلقوں کی نشاندہی کی ہے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ این اے 110,122,125اور 154 میں ووٹوں کی تصدیق کی درخواست کی گئی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ اگر نوٹیفکیشن جاری ہو چکے ہیں تو کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ختم نہیں ہو گیا۔ متعلقہ معاملے سے متعلق مکمل طریقہ کار بتایا گیا ہے۔ عدالت کا اختیار محدود ہے اس سے باہر نہیں جا سکتے۔ آئین میں انتخابی معاملات کے فورم بتائے گئے ہیں۔ اس پر عمران  خان نے کہا کہ اس پر ہماری داد رسی نہیں ہو گی۔ چار پانچ ماہ سے الیکشن کمیشن میں درخواستیں زیر التواء ہیں کوئی شواہد یا بیان ریکارڈ نہیں ہوا۔ حلقہ این اے 125 میں الیکشن کمیشن نے 21 پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹوں کی تصدیق کرانے کی ہدایت کی  تھی لیکن ایک پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ عمران خان نے کہا کہ عوام کے لئے آئے ہیں، جمہوریت کی بنیاد عدلیہ اور میڈیا نے رکھی، شفاف  الیکشن نہیں ہوئے، چھ ماہ سے الیکشن کمشن نے پی ٹی آئی کی درخواستوں پر کوئی فیصلہ نہیں کیا اگر عدالت ان حلقوں میں دوبارہ ووٹوں کی تصدیق کا حکم جاری کر دے گی تو مستقبل کے لئے  لائحہ عمل تیار ہو جائے گا یہ جمہوری مستقبل کے لئے بہت اہم ہے۔ عدالت نے درخواست باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو دو حلقوں این اے 125 اور154 میں انگوٹھوں کی تصدیق کی رپورٹ پندرہ روز میں پیش کرنے کا حکم دے دیا جبکہ سکریٹری الیکشن کمیشن کو عدالتی حکم کے باوجود دونوں حلقوں میں تصدیق کا عمل مکمل نہ کرنے کے حوالے سے پیرا وائز جواب 15 روز کے اندر عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی گئی۔ جبکہ عدالتی کارروائی کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے سپریم کورٹ میں انگوٹھے کے نشان کے ذریعے ووٹ کی تصدیق کے حوالے سے درخواست منظور ہونے کو صاف و شفاف انتخابات کیلئے پہلا قدم قرار دیتے ہوئے کہا پاکستان کی سپریم کورٹ اور میڈیا آزاد ہیں، دھاندلی ہی کرنی ہے تو بلدیاتی الیکشن نہ کرائے جائیں۔ انھوں نے کہا وہ صرف 4 حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا درخواست پاکستان میں جمہوریت کے لیے دائر کی گئی۔عمران خان اس سے پہلے جب سپریم کورٹ پہنچے تو تحریک کے مرکزی رہنما بھی ان کے ساتھ تھے۔اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ دھاندلی ہی کرنی ہے تو بلدیاتی الیکشن نہ کرائے جائیں۔ انھوں نے کہا وہ صرف 4 حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق چاہتے ہیں۔ واضح رہے  کہ این اے 125 سے وفاقی وزیر خواجہ  سعد رفیق  اور این اے 154 لودھراں  سے آزاد  امیدوار محمدصدیق خان بلوچ  کامیاب ہوئے تھے۔  ان دونوں حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف  کے امیدوار حامد خان اور جہانگیر ترین  ناکام ہوئے تھے۔  عدالت نے الیکشن ٹربیونل لاہور اور ملتان کو بھی 15 دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ دھاندلی ہوئی یا نہیں فی الحال کوئی رائے نہیں دینا چاہتے۔ چیف جسٹس  نے حامد خان سے استفسار کیا ، کیا آپ نے الیکشن کمشن کو کوئی اپیل کی تھی۔ حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمشن کو 2 بار درخواست دے چکے لیکن  کوئی کارروائی نہیں ہوئی، دھاندلی کے معاملے کی انکوائری کے لئے 140  دن کا وقت دیا جاتا ہے 5 ماہ گزر گئے کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔  اس مرتبہ ریٹائرڈ  ججز کو الیکشن ٹربیونل  کی باگ ڈور دی گئی جو غیر جانبدار نہیں ہوئے۔ جسٹس اعجاز افضل  نے کہا کہ الیکشن کمشن کا اپنا میکنزم ہے کسی بھی نتیجے کو چیلنج کرنے کے لئے الیکشن کمشن کا ہی دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے تھا۔ تحریک انصاف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عام انتخابات میں دھاندلیوں کا سب سے بڑا نشانہ تحریک انصاف بنی۔ دھاندلی کے ذریعے تحریک انصاف کے مینیڈیٹ  پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ چودھری نثار نے خود بیان دیا تھا کہ انگوٹھوں کی نشان دہی  پر 60 سے 70  ہزار ووٹ جعلی نکلیں گے ۔ چیف جسٹس  نے  کہا کہ  یہ صرف چار حلقوں کا معاملہ نہیں اگر ہم نے چار حلقوں کا فیصلہ سنا دیا تو کل سارے کھڑے ہو جائیں گے۔  سب بولیں گے کہ آپ نے ایک ہی پارٹی کی کیوں سنی۔ ان درخواستوں کو روکنا ناممکن  ہو جائے گا۔ عمران خان  نے عدالت میں اپنے بیان  میں کہا کہ ووٹ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ میں پاکستانی شہری ہوں اور انصاف کے لئے عدالت میں آیا ہوں  الیکشن کے وقت حکمران جماعت  سمیت دیگر پارٹیوں نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ یہاں ساری پارٹیاں  روتی رہیں کہ دھاندلی ہو رہی ہے یہ کیسی جمہوریت ہے، جمہوریت  تو صدام حسین اور دیگر آمر بھی لاتے رہے۔  عدالت نے الیکشن کمشن سے اس بات کی وضاحت  مانگی ہے کہ الیکشن  ٹربیونل نے 4  ماہ  کے اندر  انتخابی عذرداریوں کا فیصلہ کیوں نہیں کیا۔ 
اسلام آباد (ثنا نیوز)  پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا   ہے کہ ہم سپریم کورٹ  کے چیف جسٹس کا  شکریہ ادا کرتے ہیں کہ عدالت نے سیکرٹری  الیکشن کمشن سے دو حلقوں  سے یہ رپورٹ  مانگی ہے  کہ عدالت  کے احکامات  پر کیوں عمل نہیں کیا جبکہ الیکشن ٹربیونلز  میں پڑے تمام کیسز  کی رپورٹ طلب کی ہے کہ چار ماہ گزرنے کے باوجود  کیوں فیصلہ نہیں  ہوا ہم چیف جسٹس کا شکریہ ادا کرتے ہیں چیف جسٹس نے حقیقی جمہوریت  کے لئے الیکشن کمشن  سے جواب طلب کیا ہے۔ یہ کوئی تحریک انصاف کی بات نہیں بلکہ جمہوریت  کے مستقبل کی بات ہے۔  کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں  نے کہا کہ  شفاف انتخابات  کے بغیر کسی ملک میں جمہوریت نہیں آ سکتی۔ یہ صرف اس  لئے  ہو سکا ہے کہ عدلیہ اور میڈیا آزاد ہے اگر شفاف انتخابات  ہو جائیں تو ملک  نیا راستہ پکڑے گا۔ نیا پاکستان بن جائے  گا بلدیاتی انتخابات  سے قبل پتہ چل جائے گا اور لوگوں  کو نظر آئے گا کہ کس طرح کی دھاندلی  ہوئی اور کیا اقدامات کرنے چاہئیں کہ  ملک میں آئندہ ایسی دھاندلی  نہ ہو اور صاف  شفاف الیکشن ہوں،  چیف جسٹس  نے ایک قدم آگے بڑھایا ہے پہلے  پتہ تو چلے  کہ ہوا کیا ہے حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ ہر حلقہ  میں 60 سے 70 ہزار غیر تصدیق شدہ ووٹ ہیں کراچی میں تو پتہ چلاہے کہ ان میں سے بھی 60 فیصد بوگس نکلے ہیں اس طرح   کے الیکشن کا کوئی  فائدہ نہیں  بھارت  ہمارے ساتھ  آزاد ہوا 40 کروڑ  ووٹرز  ہیں  سب نتائج  کو تسلیم کر لیتے ہیں  لیکن پاکستان  میں سب جماعتوں  نے کہا کہ  انتخابات  میں دھاندلی ہوئی ہے۔  عمران خان نے کہا  کہ وہ سپریم کورٹ سے انصاف لنے آئے ہیں پی ٹی آئی کی الیکشن ٹریبونلز کے پاس ساٹھ شکایات پڑی ہیں ہم چاہتے ہیں  صرف چار حلقوں پر فیصلہ کردیا جائے۔ انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی حکومت کو ہم پہلے ہی تسلیم کرچکے ہیں چاہتے ہیں کہ آئندہ دھاندلی نہ ہو اگر ایسے ہی انتخابات کرانے ہیں تو پھر ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ ٹریبونلز دوبارہ ووٹوں کی گنتی کا حکم دیتے ہیں تو مسلم لیگ ن  کے جیتے ہوئے امیدوار جا کر ہائیکورٹ سے سٹے آرڈر لے لیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کسی بھی حلقہ سے مخالفین دوبارہ گنتی کرانا چاہیں ہم اس کیلئے تیار ہیں سات ماہ گزرگئے ہمیں انصاف نہیں ملا الیکشن کمیشن اور ٹریبونلز انصاف فراہم نہیں کرسکے۔ سپریم کورٹ سے انصاف کی توقع ہے۔ امید ہے چیئرمین نادرا سے متعلق سے عدالت آئین کے مطابق فیصلہ کرے گی۔  شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور دیگر رہنما بھی ان کے  ساتھ تھے۔ اس سے قبل عدالت روانگی سے قبل بنی گالہ میں اپنے گھر کے باہر میڈیا سے گفتگو میں عمران خان نے  کہا  کہ ہم انصاف کے حصول کیلئے سپریم کورٹ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں جا سکتے ہیں  سپریم کورٹ سے ہم  نے بڑی امید لگائی ہے بڑی مثبت استدعا ہے کہ چار حلقوں پر تحقیقات ہو اور پتہ چلے کہ ہوا کیا ہے تاکہ آئندہ الیکشن ٹھیک ہوں ہم کہتے ہیں کہ دھاندلی کسی صورت  قابل قبول نہیں اگر اسی طرح کے الیکشن کرانے ہین جس طرح کے بلدیاتی انتخابات پنجاب میں کرانے جارہے ہیں تو اس سے بہتر ہے الیکشن نہ کرائیں  ملک میں  بادشاہت کا اعلان کردیں ہمیں سپریم کورٹ سے بڑی امید ہے ہمیں عدالت سے بڑی امیدیں ہیں ایک ہی ادارہ ہے جس سے ہم انصاف کی توقع رکھتے ہیںنہ ٹریبونلز سے ابھی تک کوئی انصاف ملا اور نہ ہی الیکشن کمیشن سے ملا۔ سات ماہ ہوگئے چار ماہ کا وقت ٹریبونلز کو دیاگیا تھا  پہلے چار حلقوں پر فیصلہ کیا جائے پھر 272 حلقوںپر کرلیا جائے272 حلقوں کیلئے فیصلہ کرنے میں دس سال لگیں گے  تمام جماعتیں پنجاب میں حلقہ بندیوں پر اعتراض کررہی ہیں ہم خیبر  پی کے میں بائیومیٹرک سسٹم لارہے ہیں  حکومت کی جانب سے نادرا کا انتظامی کنٹرول تین ماہ کیلئے الیکشن کمیشن کو دینے کے معاملہ پر مشاورت کے بعد ردعمل دیں گے یہ  الیکشن کمیشن کا ہی کام تھا سیاہی فراہم کرنا اور اس کو نادرا کا کنٹرول دیا جارہا ہے  انصاف چاہیے چاہے کوئی کسی بھی طریقہ سے ہمیں دے دے الیکش کمشن اور ٹریبونلز سے ہمیں انصاف نہیں ملا ہم نے سپریم کورٹ کا راستہ اختیار کیا  ہے۔ عمران خان نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھانا چاہئے‘ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے میڈیا کو آزاد ہونا چاہئے‘ صحافتی برادری پر ظلم و ستم برداشت نہیں کرینگے۔ 

مزیدخبریں