1970ءکے انتخابات کو قبول کر لیا جاتا تو سانحہ سقوط ڈھاکہ سے بچا جا سکتا تھا: حمیدرضا صدیقی

ملتان (لیڈی رپورٹر) نظریہ پاکستان فورم ملتان کے زیراہتمام سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے برٹش یونیورسٹی کالج میں تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت پروفیسر حمید رضا صدیقی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض انجینئر ممتاز احمد خان نے ادا کئے۔ صدارتی خطاب میں ڈاکٹر حمید رضا صدیقی نے کیا۔ اس سانحہ کی بنیاد میں وہ سیاسی اور سماجی عوامل کارفرما رہے ہیں جن کی ابتداءقیام پاکستان کے فوراً بعد تھی۔ زبان کے تنازعہ سے ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سابقہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان سب سے بڑی قدر مشترک اسلامی قومیت تھی اور یہی قومیت قیام پاکستان کا سب سے بڑا محرک تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد سیاسی بداعمالیوں اور انتظامی کوتاہیوں کی وجہ سے پاکستان دشمن عناصر بنگالی بھائیوں میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بونے میں کامیاب ہو گئے۔ اگر 1970ءکے انتخابات کے نتائج کو قبول کر لیا جاتا تو سقوط ڈھاکہ کے سانحہ سے بچا جا سکتا تھا۔ مہمانان اعزاز رشید احمد ‘ علامہ خالد محمود ندیم اور محمد اشرف قریشی نے کہاکہ دسمبر 1971ءمیں پاکستان کا دولخت ہو جانا اور پھر نوے ہزار سے زائد فوجیوں اور سویلینز کا دشمن بھارت میں قید ہو جانا تاریخ پاکستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی تاریخ کے عظیم سانحات میں سے ایک سانحہ ہے۔ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بتالیس سال قبل جنرل نیازی کا بھارتی جرنیل کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا روح فرسا منظر آج بھی یاد کرکے دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن سب سے بڑی دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما¶ں نے تریخ سے وہ سبق نہیں سیکھا جو انہیں سیکھنا چاہئے تھا۔ آج ملک و قوم دہشت گردی اور خصوصاً بلوچستان میں مبینہ علیحدگی جیسے بحرانوں سے پھردوچار ہیں۔ مہمان اعزاز محمد اعظم خاکوانی نصرت محمود خان اور علامہ غلام دستگیر حامدی نے اپنے خطاب میں سانحہ سقوط ڈھاکہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سانحہ کے بعد ملک و قوم آج تک سنبھال نہیں پائے۔ ہمیں چاہئے کہ اس سانہ سے سبق سیکھیں۔ تقریب سے انجینئر ممتاز احمد خان‘ شوکت اﷲ وارثی‘ بشری احمد‘ ملک جندوڈا اعوان‘ ارشد حسین قریشی‘ نعیم اقبال‘ ناصر رضا اعوان‘ پیرزادہ عبدالحفیظ‘ مشرف علی قریشی نے بھی خطاب کیا۔

ای پیپر دی نیشن