نواز شریف دو تین وزیروں کی قربانی دیں۔ آصف زرداری کا مشورہ۔ ایسا قیمتی مشورہ اگر کوئی مفت میں دےدے تو اسکی قدر کرنی چاہئیے یہی لوگ تو ہمارے اصل دوست ہیں۔ اگر حکومت موجودہ بحران سے نکلنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اسے چاہئیے کہ وہ مفاہمت کو نئے معنی پہنانے والے اس بحران پروف سابق صدر کے مشورے پر ضرورعمل کرے۔ اس وقت ایسے وزراءجن کی زبان بندی کیلئے عرصہ سے لوگ حکمرانوں کو مشورے دے رہے ہیں‘ جان چھڑانا ازحد ضروری بھی ہے۔ بڑے کہتے ہیں کہ اگر مال دیکر جان بچے تو ضرور بچائیں۔ اور اگر جان دیکر عزت بچے تو بچانی چاہئیے۔ اس طرح اگر وزراءکی قربانی دے کر حکومت پہ آیا برا وقت ٹل سکتا ہے تو اسے ٹالنے میں حرج ہی کیا ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ بکروں کی جگہ ان دھاڑنے والے شیروں کی قربانی کرنا ہوگی ان میں سے بھی کچھ تو کاغذی شیر ہیں جنہیںسب جانتے ہیں۔ ان کو درشنی پہلوان بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں ذرا تصرف کے ساتھ کہ....
یہ ہے شہادت گہے ”سیاست“ میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں ”سیاستدان“ ہونا
ویسے ہم زرداری کی سیاست کے قائل ہو گئے ہیں۔ دوسروں کو کیا ڈنکے کی چوٹ پر قربانی کا مشورہ دے رہے ہیں۔ خود انہوں نے بھی اپنے دور حکومت کے آخری سالوں میں یکے بعد دیگرے اپنے دو وزرائے اعظم کی قربانی دی تھی۔ مگر اس وقت جب ان کے اور پارٹی چیئرمین بلاول کے درمیان ”نورا کشتی“ چل رہی ہے۔ زرداری صاحب دیکھتے ہیں کس کی قربانی دے کر اس ڈرامے کا ڈراپ سین کرتے ہیں۔ ویسے تو انہوں نے کھل کر کہہ بھی دیا ہے کہ ”میں بے نظیر کا جانشین ہوں اور بلاول میرا جانشین ہو گا“۔ گویا جب تک میں زندہ ہوں پارٹی میرے کنٹرول میں رہے گی۔ اور بلاول بھی میرے اشاروں پر چلے گا۔ اس دعوے کو وہ بے نظیر کی اصل نما نقلی وصیت سے ثابت کرتے پھرتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے پسر کب پدر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ”شہید والدین“ کے نام پر اصل وصیت لے کر پارٹی پر کنٹرول سنبھالتا ہے۔ آج تک خاندانی حکمرانوں کی تاریخ میں یہی کچھ تو ہوتا آیا ہے۔ یقین نہ آئے تو ذرا تاریخ کی ورق گردانی کر کے دیکھیں۔
٭....٭....٭....٭
لندن میںمولانا فضل الرحمن پر ایک مرتبہ پھر نوجوان کا حملہ۔ اس بار حملہ اطلاعات کے مطابق عمران خان کے بھانجے حسن نیازی نے کیا۔ حیرت انگیز بات ہے ماموں پاکستان کی سڑکوں پر باسی کڑی میںابال لا کر اپنی کھوئی ہوئی جوانی کی بہاریں دکھا رہے ہیں۔ تو بھانجا لندن کی زمستانی شاموں میں اپنے گرم لہو کی گرمی دکھانے پر تلا ہوا ہے۔ یہاں ماموں زبان کلامی بھاش دے کر نوجوانوں کو ابھارتے ہیں۔ تو لندن میں بھانجا دست بدست دو بدو مولانا پر دھونس جماتا نظر آتا ہے۔
معلوم نہیں یہ لندن کا دورہ مولانا کیلئے کس نے کس نیت سے طے کرایا کہ چند روز میں دوسری مرتبہ مولانا مخالفین کے حملوں کی زد میں آگئے۔ اب حسن نیازی نامی یہ نوجوان کہتا ہے کہ مولانا نے اسے تھپڑ مارا اب کیوں مارا کب مارا کیسے مارا یہ تو صیغہ راز میں ہے۔ البتہ جب مولانا پر برستے ہوئے ڈرون حملہ کرتے ہوئے نوجوان کو مولانا کے ساتھیوں نے دبوچا اور باہر لے جا کر پولیس والوں کے سپرد کیا تو اس وقت یہ نوجوان نہایت غیض کے عالم میں بہت کچھ کہتے ہوئے پائے گئے۔ اور اندر ہال میں تقریب کے دوران سٹیج پر بیٹھے مولانا صدر نشین سے زیادہ غم نشین نظر آئے اور گم صم کھوئے کھوئے پائے گئے مولانا کی یہ حالت تو دیکھی نہیں جاتی۔ یہاں لندن میں بھی جہاں دنیا بھر کے لوگ غم بھلانے جاتے ہیں۔ اس باغی نوجوان نے مولانا کے رنگ میں بھنگ ڈال کر انہیں اور اداس کر دیا۔ اوپر سے لندن پولیس کی زخموں پر نمک پاشی بھی دیکھیں۔ نوجوان کو چند لمحے پکڑنے کے بعد میں چھوڑ دیا۔ اگر یہی کام وہ پاکستان میں کرتا تو اسے لگ پتہ جاتا۔
٭....٭....٭....٭
لاہور والوں کو سلام حکمرانوں نے پنگا لیا تو اڑا کر رکھ دیں گے۔ شیخ رشید، یہ خواہش تو عرصہ دراز سے شیخ جی کے دل میں مچل رہی ہے کہ بندہ خدا آئے اور حکومت کو دھپ سے اڑا کر رکھ دے۔ مگر افسوس پیپلز پارٹی کے 5 سال اور موجودہ حکومت کے 2 سال پورے ہونے لگے ہیں۔ مگر ایسا کوئی سانحہ ممکن نہیں ہو سکا۔....
نہ ہوا آ نہ ہوا ”شیخ“ کو آرام نصیب
”دھرنوں جلسوں میں بہت زور انہوں نے مارا“
تحریک انصاف کا کوئی جلسہ ہو۔ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں۔ شیخ رشید ہر تقریر میں۔ لڑو مرو کوئی آئے پاکستان بچائے۔ حکمرانوں کو بھگائے کا درس دے دے کر تھک گئے ہیں۔ انکی پوری ایمانداری کے ساتھ کوشش ہے کہ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان سڑکوں پر جنگ ہو اور وہ نیرو کی طرح بانسری بجاتے رہیں۔ مگر حکومت اور تھرڈ امپائر لگتا ہے حالات اور واقعات کو اس نہج پر لے جانا ہی نہیں چاہتے کہ جہاں سے کسی تیسری طاقت یا غیر جمہوری طاقت کو مداخلت کا موقع مل سکے۔
شیخ جی کی شیخیاں صرف دوسروں کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر چلانے تک ہی محدود ہیں۔ آج تحریک انصاف ان سے اپنا کاندھا واپس لے لے تو انہیں لگ پتہ جائیگا کہ کتنے پیسیوں کا سو بنتا ہے۔ خود وہ اور ان کی تانگہ پارٹی جس کی سواری بھی وہ خود ہیں اور کوچوان بھی بمشکل لال حویلی کے باہر چند سو افراد جمع کر سکتی ہے۔ جس کے بعد دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح حکومت کو للکارتے اور غیر جمہوری طاقتوں کو دعوت دیتے ہیں۔ بڑھاپے میں مشرف کے ہاتھ پر بیعت کر کے وہ اپنی سیاسی ساکھ کب کی کھو چکے ہیں۔ اب تو لوگ انہیں صرف سننے کیلئے دیکھتے ہیں کہ جوان بننے اور دکھائی دینے کی کوشش میں مصروف یہ چاچا شیخوکس طرح غیر جمہوری انداز میں جلسہ گرمانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی اس کی کسی بات کو سنجیدگی سے لیتا ہی نہیں۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ان ک پوٹلی میں کچھ بھی نہیں۔ بس میلہ دیکھنے کے شوق میں یہ بڑھکیں لگاتے پھرتے ہیں۔ ساہیوال میں انکے راز دار جانتے ہیں کہ جیل کے نام پر ان کی ساری مردانگی کس طرح دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ عوام کے سامنے اسے اپنا سسرال کہتے ہیں۔