شکر وِچ پیاز کیوں گھولیوئی (وارث شاہ)

    مکرمی! نوائے وقت 6دسمبر 2014 کے شمارے میں صفحہ 5 پر اپنے تازہ ترین کالم بعنوان ’نابینائوںکی ’’محسن‘‘پنجاب پولیس‘  میں محترمی جناب اثر چوہان صاحب نے وارث شاہ کی مشہورِ زمانہ ’ہیر رانجھا ‘سے متعلق کشکول اور ٹھوٹھے کے ناطے ایک تذکرہ رقم فرمایا ہے جو ٹھوٹھے کی حدتک تو ٹھیک ہے لیکن باقی سب مذکورہ تفصیلات بمعہ منقولہ بیت صحیح نہیں۔وارث شاہ کی ہیر میں ٹھوٹھا ہِیرنہیں توڑتی، بلکہ اُسکی کاغذی نند سہتی توڑتی ہے جو خود کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے یہ جواز پیدا کرتی ہے کہ: ’ٹھوٹھا نال تقدیر دے بھج پیا‘ (یعنی تیرے کشکول کی قِسمت میں میرے ہاتھ سے حادثاتی طور پر ٹوٹنا لِکھا تھا، سو وہ ٹوٹ گیا)۔ ٹھوٹھا ٹوٹنے میں ہِیر کا کوئی دخل نہ تھا۔ مزید جو بیت جناب اثر چوہان صاحب نے اپنے کالم میں نقل کیا ہے وہ تو وارث شاہ کا ہے ہی نہیں۔ وہ وارث شاہ کی شکر دہن تصنیف ’  ہِیر رانجھا ‘ (سنِ تکمیل1180 ہجری بمطابق 1766 ء ) میں پیاز گھولنے والے لاہور کے ایک درزی ہدایت اﷲ کا ہے جِس نے درجنوں بند اورسینکڑوں ابیات کی ملاوٹ کرکے وارث شاہ کے کلامِ کو پراگندہ کیا اور 1887 میں وارث شاہ کے نام پر اپنی ہِیر پبلش کی۔جناب اثر چوہان کے کالم میں ’ گیا بھج تقدیر ۔۔۔۔‘  والا مذکورہ بیت اسی ہدیت اﷲ کا  ہے لیکن غلط طور پر وارث شاہ سے منسوب کیا گیا ہے۔  ایسے ہی غیر محتاطی عمل نے مِن حیث القوم ہمیںوہاں لا کھڑا کیا ہے جہاں آج ہم خود کو جکڑے محسوس کرتے ہیں کہ ہم زِندگی کے ہر مقام پر حقدار اور ناحقدار میں تمیز سے قاصر ہو چکے ہیں۔(ڈاکٹر  محمد افضل شاہد)

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...