لاہور (احسان شوکت سے) پشاور میں دہشت گردی کی المناک کارروائی کے کچھ سنگین پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔ دہشت گردوں کی جانب سے سکول میں منی کلاشنکوفوں سے برسٹ ایسے مارے جا رہے تھے جیسے انکا ہدف زیادہ سے زیادہ بچوں کو قتل کرنا ہے، وہ کسی نمبر گیم کو پورا کرنے کے ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے جنون میں مبتلا تھے۔ بچے جس کمرے میں جاتے یا بنچوں کے نیچے چھپنے کی کوشش کرتے انہیں دہشت گرد کھینچ کر سر پر گولیاں مارتے۔ ذرائع کے مطابق دہشت گرد آپس میں عربی اور انگلش میں باتیں کر رہے تھے۔ بچوں کو بے دریغ قتل کر نے کی اس کارروائی کو دیکھیں تو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کسی کو بچوں کو بے دریغ قتل کرنے کیلئے دھوکے یا برین واشنگ سے تیار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انسانی نفسیات وفطرت ہے ذہن ہر چیز اور عمل کا جواز مانگتا ہے جو ظاہر ہے ننھے پھولوں کیخلاف کارروائی پر کسی کو جنت کا لالچ دے کر آمادہ نہیں کیا جا سکتا نہ کوئی شخص مذہبی جنون میں مبتلا ہو کر چھوٹے بچوں کو خون میں نہلانے کیلئے تیار ہتا ہے۔ یہ بہر طور ایک بیرونی سازش لگتی ہے جس کے تانے بانے سرحد پار سے ملتے ہیں۔ دہشت گردوں کو اس بات سے کوئی غرض نہ تھی مرنے والے کون ہیں یا انکا نشانہ معصوم بچے ہیں وہ تو اپنا ٹارگٹ سمجھ کر جذبات سے بے نیاز روبوٹ کی مانند کارروائی کر تے رہے۔ 7دہشت گردوں کے جسموں پر دھماکہ خیز مواد تو بندھا تھا مگر سب نے اپنے آپ کو اڑانے کی کوشش نہیں کی جس کا مطلب ہے وہ منصوبے کے مطابق اس کارروائی کو آسان ہدف سمجھتے تھے اور واپس جانے کی امید رکھتے تھے۔