دہشت گرد عربی بول رہے تھے‘ ایک زخمی بچی نے ’’مردہ‘‘ بن کر جان بچائی

پشاور+ اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں+ بی بی سی ڈاٹ کام) آرمی پبلک سکول میں دہشت  گردوں کے حملے میں زخمی ہونے والے بچوں نے کہا ہے کہ دہشت  گردوں نے کمروں میں داخل ہوتے ہی بچوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔ وہ عربی زبان میں بات چیت کر رہے تھے اور غیرملکی لگتے تھے، انکی بڑی بڑی داڑھیاں تھیں، وہ کمروں میں گھس کر بچوں کو مارتے رہے اور بے رحمانہ طریقے سے فائرنگ کرتے رہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حملے کے زخمی طالب علموں نے کہا کہ سکول میں فوجی اہلکاروں کی طرف سے طلباء کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی جا رہی تھی کہ اس دوران تین حملہ آوروں نے اچانک ہال میں داخل ہوکر اندھادھند فائرنگ شروع کردی۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں زیرعلاج دسویں جماعت کے ایک طالب شاہ رخ نے بتایا کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو وہ نیچے بیٹھ گئے اور تھوڑی دیر کے بعد جب اٹھے تو آدھے سے زائد طلباء کو گولیاں لگی تھیں اور وہ سب چیخ و پکار کررہے تھے۔ ہال میں آٹھویں، نویں اور دسویں جماعت کے درجنوں طالب علموں کو فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جا رہی تھی۔ انکے مطابق ہمیں بالکل پتہ نہی نہیں چلا کہ حملہ آور کیسے اندر داخل ہوئے۔ حملہ آوروں کی بڑی بڑی مونچھیں اور داڑھیاں تھیں۔ وہ سب سادہ لباس میں ملبوس تھے۔ شاہ رخ کے مطابق میں سیٹ کے نیچے لیٹا ہوا تھا اور میرے قریب دو اساتذہ بھی تھے، انہیں بھی گولیاں لگی ہوئی تھیں۔ سکینڈ ائر کے ایک طالب علم عامر امین نے بتایا کہ کیمسٹری کا پرچہ ختم ہوکر وہ سب دوستوں کے ہمراہ سکول کے برآمدے میں بیٹھے تھے کہ اس دوران سکول میں فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ ہم نے کلاس روم میں پناہ لینے کی کوشش کی مگر ہمارا دروازہ بند کرنے سے پہلے ہی تین حملہ آور اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کردی۔کمرے میں دس کے قریب لڑکے تھے اور سب کے سب شہید کردئیے گئے۔ عامر امین کے مطابق ’’حملہ آور چیخ رہے تھے کے کلمہ پڑھو‘‘ اور ساتھ ساتھ میں ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے بھی بلند کرتے رہے اور بے رحمانہ طریقے سے فائرنگ بھی کرتے رہے۔ انکے سکول کی سکیورٹی انتہائی سخت ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ حملہ آور پیچھے کی دیوار پھلانگ کر سکول میں داخل ہوئے۔ میں نے ایک حملہ آور کو دیکھا اسکی بڑی بڑی داڑھی تھی اور بڑے بڑے بال بھی تھے جبکہ اس نے سویٹر بھی پہنا ہوا تھا۔ ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک سکول سے باہر آنے والے ایک عینی شاہد مدثر اعوان نے کہاکہ جیسے ہی فائرنگ شروع ہوئی، ہم اپنی کلاسوں کی جانب بھاگے، سکول کے آڈیٹوریم میں نویں اور دسویں جماعت کے طلبا کی الوداعی تقریب ہو رہی تھی اور کچھ طلبا وہاں موجود تھے۔ اوپری منزل پر گیارہویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات ہو رہے تھے اور طلبا کمروں میں بیٹھے ہوئے تھے، میں نے حملہ آوروں کو دیکھا، وہ تعداد میں چھ یا سات تھے۔ وہ ہر کمرے میں گھس گھس پر بچوں کو مار رہے تھے۔ ایک اور عینی شاہد نے مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اسے توڑ کر اندر آگئے اور پھر فائرنگ شروع کردی۔ فائرنگ کی شدت سے لگتا تھا کہ وہ 20 سے 25 ہیں، ہم میزوں کے نیچے چھپ گئے تو انہوں نے ہمارے سر اور ٹانگوں کی جانب گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا اور وہ بار بار کمرے میں آتے رہے،  ہم میں سے کوئی نہ ہلا کیونکہ جو بھی ہلتا وہ اُسے مار دیتے۔ رائٹرز کے مطابق 15سالہ طالب علم جلال احمد نے کہا کہ وہ بائیوکمسٹری کی کلاس لے رہا تھا کہ اچانک فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ طالب علم شاہ رخ کو ٹانگوں میں 2گولیاں لگیں تاہم وہ بنچ کے نیچے چھپ جانے کے باعث بچ گیا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...