” میرے ہم وطنو! تُم سب چور ہو!“

سرگودھا سے سیّد شبیر حسین بخاری ایڈووکیٹ نے مجھے ٹیلی فون پر کہا کہ ”اثر چوہان صاحب! آپ نے اپنے کالم میں اِس خبر پر تبصرہ نہیں کِیا کہ ”جناب آصف زرداری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی) کے صدر ہونگے اور بلاول صاحب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے“ کیا آپ بتائیں گے کہ اِس بانٹ کو کیا کہا جائے گا؟ اور کون فائدے میں رہا؟“۔

پیپلز پارٹی کی ”زرداری بانٹ“
محترم بخاری صاحب! عرض یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی عہدوں کی بانٹ بھی جناب آصف زرداری نے کی تھی لہٰذا اِس بانٹ کو بھی”زرداری بانٹ“ ہی کہا جائے گا۔ جب اِس بانٹ پر پی پی پی پی کے مرحوم چیئرمین مخدوم امین فہیم کے کسی وارث نے دعویٰ نہیں کِیا تو مَیں کون ہوتا ہوں اعتراض کرنے والا۔ وہ اور بات تھی جب حضرت داغ دہلوی نے کہا تھا کہ....
”غیر کی قِسمت سے ہُوں مَیں کم نصب
بانٹ کیسی تھی؟ یہ تھی تقسیم کیا؟
عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد کہا کرتے ہیں ”مَیں شیخ ہُوں خسارے کاکام کبھی نہیں کرتا“۔ لیکن جناب آصف زرداری نے کئی بار ثابت کِیا ہے کہ بلوچ ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ فائدے کا ہی کام کرتے ہیں۔ اِس وقت قومی / سندھ اسمبلی اور سینٹ میں پی پی پی پی کے ٹکٹ پر کامیاب ارکان رونق افروز ہیں، جِن کے صدر جناب آصف زرداری ہوں گے اور جنابِ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پی پی پی کے صدر بلاول بھٹو زرداری جِن کی پارٹی سندھ میں بلدیاتی سطح پر کافی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اِس لئے جنابِ زرداری فائدے میں رہے اور بلاول صاحب خسارے میں۔
”میرے ہم وطنو! تُم سب چور ہو!“
سندھ میں دہشت گردوں اور دوسرے جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کرنے والے رینجرز کو حسبِ سابق زیادہ اختیارات دئیے جائیں یا اُن کا اختیار صِرف دہشت گردوں تک محدود کردِیا جائے؟ اِس کا فیصلہ آج یا کل ہو جائے گا۔ بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ”جمہوریت کے تسلسل“ کے لئے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی میں مفاہمت ہو جائے گی۔ ایک نیوز چینل نے تو محترمہ بے نظیر بھٹو‘ میاںنواز شریف اورجناب آصف زرداری اور میاں صاحب کی خوشگوار یادوں کی تصاویر کو ٹیلی کاسٹ کر کے عوام کو یہ تاثر دِیا ہے کہ دونوں طرف سے بیان بازی کے بعد بھی آپس میں ”مُک مُکا“ ہو جائے گا۔
جنابِ آصف زرداری کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم حسین کو دہشت گردی اور کرپشن کے الزامات پر گرفتار کِیا گیا تو صدر زرداری سے لے کر عام کارکُن نے اُسی انداز میں واویلا کِیا جیسے نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش کے مقدمے میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتار ی کے بعد کِیا گیا تھا۔ سیّد قائم علی شاہ وہی کریں گے جو زرداری صاحب اُنہیں حکم دیں گے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی کبھی کبھی اپنی مرضی کرتے ہیں اور جب وزیراعظم نواز شریف بذریعہ خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اُن کو راضی کر لیتے ہیں تو وہ وزیراعظم کا ہر حُکم بجا لاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ اور اُن کے مشیر اطلاعات جناب مولا بخش چانڈیو نے رینجرز کو حسبِ اختیارات دینے میں ”چونکہ / چنانچہ“ کی تو چودھری نثار علی خان نے کہا ”کئی سال سے وسائل دِیمک کی طرح چاٹنے والے سندھ پر حملہ آور ہیں اور اپنے غلط کاموں کو چُھپانے والے سیاست کو اپنی ڈھال بنا رہے ہیں“۔ چودھری صاحب نے سندھ حکومت کی طرف سے رینجرز کو اختیارات نہ دینے پر وفاق کے کئی "Options" کی بھی دھمکی دی تھی۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف سیّد خورشید شاہ نے چودھری نثار علی خان سے کہا ”سندھ میں گورنر راج لگائیں یا ایمرجنسی اب ”جنگ“ دُور تک جائے گی“۔ شاہ صاحب نے ”جنگ کا انجام“ بھی بتا دِیا اور کہا کہ ”جب ہم ایک دوسرے کو چور کہتے ہیں تو ”وہ“ آجاتے ہیں (وہ سے مراد.... فوجی جرنیل) اور کہتے ہیں ”میرے عزیز ہم وطنو! تُم سب چور ہو!“ سیّد خورشید شاہ نے عوام کی پروا نہ کرتے ہُوئے کہا کہ دونوں پارٹیوں کی قیادتوں کے بارے میںکیا سوچیں گے؟۔ وہ چودھری نثار علی خان کو مخلصانہ مشورہ دے رہے ہیں ”سیاستدانوں کا ایک دوسرے کو ”چور“ کہنا اُن کے فائدے میں نہیں‘ نقصان میں ہوتا ہے۔ ایک بھارتی فلم میں آنجہانی راج کپور نے چور کا کردار ادا کِیا تھا اور جب اُس کی محبوبہ نے اُسے چور ہونے کا طعنہ دِیا تو چور نے گا کر بتایا کہ ....
”مَیں چور ہوں‘ کام ہے چوری اور چور ہے میرا نام
دِل کو چُراتا آیا ہُوں‘ بس یہ ہی میرا کام“
اگر کوئی سیاستدان قومی وسائل یا خزانہ چوری کرنے کے الزام میں پکڑا جائے اور اُس کے وُکلاءاپنے دلائل دیتے ہُوئے عدالت سے عرض کریں ”جناب والا!۔ قومی سطح کا یہ سیاستدان جو چوری کے مقدمے میں آپ کی عدالت میں کھڑا ہے وہ تو ”دِل کا چور“ ہے۔ اِس نے عوام کا دِل چُرایا ہے یہ کوئی جُرم نہیں ہے“۔ کئی سیاستدان عوام کا دِل چُرا کر اقتدار کے ”رنگ محل“ میں آنے کے بجائے اُس ”چور دروازے“ سے داخل ہوتے ہیں جو ”میرے عزیز ہم وطنو!۔ کہنے والے شخص نے اُن کے لئے سجایا ہوتا ہے“۔ مرزا غالب نے سِکندر سے چوری عُمر جادواں کے لئے ”آبِ حیات“ پینے پر چھیڑتے ہُوئے کہا تھا ....
”وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضرؑ!
نہ تُم کہ چور بنے عُمرِ جادواں کے لئے“
مرزا غالب ”روشناسِ خلق“ (عوام کو جاننے والے) تھے لیکن وہ سیاستدان نہیں تھے۔ چوری چکاری نہیں کرتے تھے البتہ ایک بار جُوا کھیلتے ہُوئے پکڑے گئے تھے۔ چور بھی وہی ہوتا ہے جو پکڑا جائے۔ پاکستان کے پہلے ”منتخب صدر“ سکندر مرزا نے مارشل لاءنافذ کِیا اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی کابینہ میں شامل کِیا تو جناب بھٹو پر کوئی الزام نہیں تھا۔ دِل کی چوری کا بھی نہیں۔ 20 دِن بعد آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے بھی بھٹو صاحب کو اپنی کابینہ میں شامل رکھا اور ریڈیو پر آکر ”عزیز ہم وطنو!“ بھی کہا لیکن ”تُم سب چور ہو!“۔ کا جملہ نہیں بولا۔ اِس لئے کہ جنرل ایوب خان جانتے تھے سارے ہم وطن چور نہیں ہوتے۔
جنرل ضیاءاُلحق نے بھی جب ”عزیز ہم وطنو“ سے خطاب کِیا تو سب ہم وطنوں کو چور نہیں کہا تھا۔ پھر سیّد خورشید شاہ نے یہ کیسے کہہ دِیا کہ جب ”وہ آئیں گے“۔ تو وہ سارے ہم وطنوں سے کہیں گے ”تم سب چور ہو“۔ فارسی کی ایک ضرب اُلمثل ہے ”ولی راولی می شناسد“ یعنی۔ ”خُدا رسیدہ شخص ہی دوسرے خدا رسیدہ کو پہچانتا ہے“ لیکن یہ اُردو دان لوگ بھی خوب ہیں وہ یہ کہتے ہیںکہ ”چور‘ چور کو پہچانتا ہے“۔ سیاستدان کسی دوسرے سیاستدان کو چور کہے یا نہ کہے‘ جِس نے آنا ہو وہ تو آ ہی جاتا ہے۔ کوئی آئے اور کوئی چلا جائے؟۔ عام لوگوں کو کیا فرق پڑتا ہے؟۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...