کابلی اخروٹ قندھاری انار

Dec 17, 2015

محمود فریدی

تین تصویریں، اوفا میں احساس برتری کی نمائش، کھٹمنڈو میں لوبرڈز کی طرح چھپ کر پیار اور فرانس میں صوفے پر فرینڈلی مکالمہ۔ اب یہ سارا ڈرامہ کسی خفیہ سکرپٹ کے تحت چل رہا ہے یا اس میں کچھ دخل فطری محبت اور ہمسائیگی کے جذبات کا بھی ہے، یہ ہے اصل سوال۔ عموماً ملکوں کے درمیان جذباتی لگاﺅ کی گنجائش نہیں ہوتی ، سارے معاملات مفاداتی نکتہ اتصال اور باہمی افہام تفہیم کے ذریعے طے ہوتے ہیں۔ امن ہاتھ دے امن ہاتھ لے کے تحت خالص کاروباری انداز میں، عوام کو اس لین دین کے خدوخال سے آگاہی تکمیل سے پہلے ممکن نہیں ہوتی۔ شاید ڈپلومیسی اسی کا نام ہے۔ لڑائی مار کٹائی توتکار حتیٰ کہ جنگ بھی ہوتی رہے اور تبادلہ خیالات گفتگو اور بحث و مباحثہ بھی چلے براہ راست نہیں تو بالواسطہ، جونہی اتفاق رائے ہو جنگ و بارود کی بساط صاف کرکے اس جگہ پھولوں کی سیج سجا دی جائے۔ سوال یہ ہے وہی انڈیا جس کے منہ سے آگ برس رہی تھی جسکے وزراءسرکسی بازی گروں کی طرح منہ سے مٹی کے تیل کے فواروں سے لانبو نکال رہے تھے، خاموش ہوگئے نہ صرف یہ بلکہ اپنی وزیر خارجہ کو فاختہ کے روپ میں امن کی دیوی بناکر اسلام آباد بھیج دیا۔ یہ درست ہے ڈپلومیسی کے سرکس میں شیر چیتے، چرندپرند، مداری، گویئے، ڈانسر، مسخرے سبھی ہوتے ہیں مگر کوئی سرکس بھی اتنے بھونچالی اور صدماتی پروگرام پیش کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا جتنے مودی اینڈ کمپنی نے مختصر عرصے میں چلا دیئے ہیں۔ یہ احتیاط کئے بغیر کہ کمزور دل سامعین کی اکثریت دل گرفتہ اور بیمار پڑ چکی ہے۔ مگر یہاں تو سین ہی نرالا تھا، گھن گرج چنگاڑ اتنی طویل اور زور دار کہ جیسے سارا جنگل ہی پاگل ہوگیا۔ لگاتار کئی ماہ تک سرحدوں پر گولہ باری اور نہتے کشمیریوں کا قتل عام۔ ساری دنیا میں چہ مگوئیاںکہ اب لڑے کہ اب لڑے ایٹم بم کہ پورا برصغیرراکھ ہوا.... پھر اچانک ورلڈ ریسلنگ کی نورا کشتیوں کی طرح نام نہاد زخمی چمپئن ساتھی پہلوان سے بغل گیر ہنستا مسکراتا اگلے مقابلے کی نوید سناتا ظاہر ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ساری دنیا کو انٹرٹینمٹ پیش کی جارہی یا دنیا والے پہلوانوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ انڈیا قیادت نے تو حد ہی کردی ہے، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت منہ پر کالک اور سر میں راکھ! عظمت، وقار، مہذب جیسے الفاظ کیا صرف 15 اگست کی پریڈ کیلئے مخصوص رہ گئے ہیں۔ باقی سارا سال بازی گروں والی دھماچوکڑی۔ 

ایک گاﺅں میں دو میر عالم سگے بھائی رہتے تھے، بڑا بھائی کثیرالاولاد اور جھگڑالو تھا۔ ہر کسی سے پنگا، درمیان میں دیوار نہ ہونے کے برابر تھی، کسی بھی معمولی بات پر اختلاف طعنے گالیوں اور ماضی کے قصوں سے شروع ہوتا پھر تاریخ اپنے آپکو پہلے سے بہتر انداز میں دہراتی اور یدھ گھمبیر تر ہو جاتا۔ چوہدری سپر پاور آتا تو لڑائی تھمتی، زخمی ہائے ہائے کرتے، نئی نئی گالیاں ایجاد کرتے اور گاﺅں کے لوگ گھمسان کا رن، مکالمہ، مباہلہ، کشتی، ماتم اور مشاعرہ سب کچھ یکجا دیکھ کر لطف اندوز ہوتے۔ آخری چوہدری سپر پاور دونوں بھائیوں کو جپھی ڈالنے پر راضی کرلیتا۔ سوال یہ ہے کہ اس بار بڑے بھائی نے لڑائی کا آغاز بھی خود کیا اور جپھی کیلئے ہاتھ بھی خود ہی کھول دیئے! ممکن ہے چوہدری نے ٹہو کا دیا ہو مگر یہ مودی کی ہڈی اتنی لچک دار نہیں تھی۔ درحقیقت بھارت کا دانا برہمن اپنی اوقات سے خوب آگاہ ہے۔ حالیہ ریاستی انتخاب نے پاکستان دشمن نعرے کی ہوا نکال دی۔ گائے کے گوشت پر بھارتی پالیسی نے عالمی بدنامی کا گیٹ وے کھول دیا۔ مذہبی تعصب پر مبنی تشدد نے تمام اقلیتوں بشمول عیسائیوں، دلتوں، سکھوں، مسلمانوں کو ہندو برہمن کی خودغرضانہ ذہنیت کا ثبوت فراہم کردیا۔ کشمیر میں لاکھوں مسلمانوں کی شہادتیں اور تحریک آزادی کی مزاحمت نے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ بھارت میں وہ آزاد نہیں بلکہ غلام ہیں۔ یہ صورتحال بھارت کی ایک چوتھائی پر مشتمل مسلمان قوم کی کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ ردعمل کے طور پر داعش یا اس جیسی کوئی جہادی تحریک بھارت کی سب سے زیادہ نازک اور گھمبیر فالٹ لائن ثابت ہوسکتی ہے۔ اسی خدشے کے پیش نظر پریشر ککر کا دباﺅ کم کرنے کےلئے مودی نے عمران خان کو مہمان بناکر متعصبانہ تاثر زائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ سب اپنی جگہ درست مگر بھارت کی سب سے بڑی خواہش سنٹرل ایشیا تک جانے کا خواب! بزم افغانستانی یعنی ہارٹ آف ایشیا کا ایونٹ بھلا کیسے مس ہوسکتا تھا۔ دن گنا کرتے تھے اس دن کیلئے! امرتسر سے موٹر سائیکل پر سوار ہوکر واہگے سے بلاروک ٹوک لاہور کی مال روڈ سے ہوتے راوی چناب جہلم سندھ عبور کرکے تورخم پہنچ کر جمہوریت کی رانی ”ہوا میں اڑتا جائے میرا لال دوپٹہ ململ کا“ گاتی ہوئی افغانستان میں قندھاری انار کا سرخ روح افزا جوس نوشِ جاں کرتی اور کابلی اخروٹ کی تڑاخ، ہراتی چلغوزے کی شڑاخ پر اپنے من کی پڑاخ نچھاور کرتی۔ جناب یہ سارا کھکھن اسی خواب کی تعبیر کیلئے ہے۔ زمینی راستہ! نہ بنیا کسی کا دوست ہے نہ برہمن کسی کا یار۔ وہ تو سراسر اپنے مطلب کا شار ہے اور فی الوقت مطلب ہے زمینی راستہ! جس دن یہ مطلب حاصل ہوگیا رام کی بغل میں چھپی چھری باہر نکل آئےگی۔ ہمارے بھارتی متاثرین رہنماﺅں کو یہ بات خوب اچھی طرح ازبر کرلینی چاہئے کہ کشمیر کے بغیر کوئی سہولت، کاروبار یا زمینی راستہ ممکن ہی نہیں۔ وسطی ایشیا کا ہر راستہ سرینگر سے ہو کر جاتا ہے۔ واشگاف کہہ دو! مودی صاحب! واہگہ بند ہے سرینگر کھلا ہے! اب آنا جانا ادھر سے ہی ہوگا!

مزیدخبریں