لندن (بی بی سی+آئی این پی+آن لائن)ملالہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف شروع کیے گئے قومی ایکشن پلان میں ’تعلیم کو شامل کرنا چاہیے تھا۔سانحہ پشاور کی پہلی برسی پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کا مرکزی نکتہ دہشت گردوں کو مارنا ہے لیکن اس کے 20 نکاتی ایجنڈے میں ’صبر، تحمل اور امن کا پیغام دینے والی تعلیم کا سب سے اہم پہلو شامل نہیں کیا گیا۔‘جب اْن سے پوچھا گیا کہ کیا آج پاکستان کے سکولوں میں بچے محفوظ ہیں تو ملالہ نے کہا: ’پاکستان میں کبھی آپ کو ایسا لگتا ہے کہ بڑے سیاست دانوں سمیت ہر شخص خطرے میں ہے، کیونکہ ہم نے جتنا دیکھا ہے اْس سے ہمیں بہت مایوسی ہوئی ہے، لیکن پچھلے ایک سال سے حالات ٹھیک ہو رہے ہیں، تو تھوڑی سی امید ابھی باقی ہے۔ پھر بھی تعلیم کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘پشاور کے آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد شدت پسندوں کی موت کی سزا پر عمل درآمد کرنے کے بارے میں حکومت اور عسکری قیادت کی حکمت عملی پر ملالہ نے کہا: ’آپ لوگوں کو تعلیم فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر ایک شخص لوگوں کو انتہا پسندی کی جانب لے کر جا رہا ہے تو آپ اسے اچھی تعلیم، امن اور اسلام کے اصل معنی سکھا سکتے ہیں۔ میرے خیال میں متبادل طریقے بھی موجود ہیں، انھیں ہلاک کرنا ہی واحد حل نہیں ہے۔‘ملالہ یوسف زئی نے مزید کہا کہ پاکستان میں’ضرب عضب‘ کے ساتھ ساتھ ’ضرب قلم‘ کی بھی بہت ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر ’ہم دہشت گردوں کو مار تو سکتے ہیں لیکن ان کی سوچ نہیں بدل سکتے۔‘حال ہی میں ہونے والے پیرس حملے، کیلیفورنیا میں فائرنگ کے واقعات، دنیا میں اسلامو فوبیا کے حملوں میں اضافہ اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے بیان پر ملالہ نے کہا کہ اس سے ’مزید دہشت گرد پیدا ہوں گے۔‘انہوں نے کہا: ’چاہے وہ مغربی میڈیا ہو یا مشرقی، وہ دنیا میں مقیم ایک ارب 60 کروڑ مسلمان آبادی پر الزام نہیں لگا سکتے۔ سب پر الزام لگنے سے دہشت گردی نہیں ختم کی جا سکتی، بلکہ یہ صرف لوگوں میں مزید غصہ اور زیادہ دہشت گرد ہی پیدا کرے گی۔‘ٹرمپ کے مسلمانوں کے بارے میں نظریات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کی طرف سے نفرت انگیز اور امتیازی سلوک والے بیانات دینا ایک افسوسناک امر ہے۔ چند دہشت گردوں کے اعمال کیلئے تمام مسلم کمیونٹی کو ذمہ دار نہیں قرار دیا جا سکتا۔ شہدا پشاور کو سلام پیش کرتے ہیں۔