فرانس کے جرنیل رہنما نپولین بونا پارٹ کا فقرہ بہت مشہور ہے ۔
چین ایک سویا ہوا دیوہے جب بھی جاگے گا دنیا کو از سر نو ترتیب دے گا۔
18 ویں صدی کے اس رہنما کی سیاسی بصیرت اور پیش گوئی کاہر کسی کو اقرار کرنا پڑ رہا ہے حالانکہ چین کی ترقی سے دنیا کے بہت سے ممالک بشمول انڈیا ناخوش ہیں اور چین کو ایک دشمن نہ سہی مخالف کے طور پر ضرور دیکھ رہے ہیں اور حسب استطاعت اپنی مخالفت کا اظہار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے،جس کا سب سے بڑا مظہر پاکستان سے گزرنے والی (CPEC) کی انتہا درجے کی مخالفت ہے۔ رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک اب بھی روس ہے، دوسرے نمبر پر کینیڈا، تیسرے پر چین چوتھے پر امریکہ، پانچویں پر برازیل اور چھٹے پر آسٹریلیا ہے۔ ان ممالک کو زیادہ رقبے کی وجہ سے براعظمی ممالک کہا جاتا ہے۔75لاکھ مربع کلو میڑ سے زیادہ رقبے پر محیط ملک کو براعظم کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس اصلاح کو سمجھنے کیلئے برصغیر کی اصطلاح پر غور کریں: جب تک پاکستان اور دیگر ممالک انڈیا سے علیحدہ اور آزاد نہیں ہوئے تھے، اس خطے کو برصغیر یعنی چھوٹا براعظم کہا جاتا تھا۔ پاکستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ کی علیحدگی کے بعد بھارت تقریباً 32 لاکھ مربع رہ گیا ہے اسلئے اس خطے کو اب جنوبی ایشیا کا نام سے جانا جاتا ہے نہ کہ برصغیر۔ چین کی بات ہو رہی چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اسکی آبادی ایک ارب 38 کروڑ سے زائد ہے اسلئے رقبہ اور آبادی دونوں کواکٹھا کرنے کی بنیاد پرچین کا درجہ ایک ملک کا نہیں مکمل براعظم کا ہے بر کا مطلب زمین کا ٹکڑا اور اعظم بڑا۔
امریکہ کے مقابلے میں کبھی روس دوسری بڑی طاقت تصور ہوتا تھا مگر معاشی طور پر کمزور ہونے اور 14 مختلف ریاستوں کوجنم دینے کے بعد سپر پاور کے درجہ سے محروم ہو گیا اب اسکی جگہ دنیا کی سیاست میں چین ابھر آیا ہے۔ معاشی طور پر دنیا کی دوسری بڑی طاقت چین ہے مگر چین 2025ءتک دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت اور امریکہ کے مقابل ملٹری پاور بن جائیگا۔ یوں دنیا دوبارہ BiPolar ہونے جا رہی ہے کیونکہ روس کے ٹوٹنے اور کمزور ہونے کے بعد (unipolar) امریکہ واحد سپر پاور بن گیا۔ بات ہو رہی تھی چین کی مخالفت کی تو مغربی دنیا کے ممالک بالخصوص امریکہ چین سے تحفظات رکھتے ہیں جسکی سب سے بڑی وجہ چین کا کمیونسٹ ملک ہونا ہے۔ واضح رہے کمیونسٹ ملک کی سیاست میں ایک ہی سیاسی جماعت ہوتی ہے ،اسی سیاسی جماعت میں الیکشن ہوتا ہے اورنئی قیادت کا(تواتر سے) چناﺅ ہوتا ہے۔ مغربی ممالک میں ایک تعجب خیز ہیجان بپاہے کہ ایک غیر جمہوری (انکے معیار کے مطابق) دنیا کی سب سے بڑی طاقت بننے جا رہا ہے اور یہ روس کے بعد دوسری بڑی مثال ہے۔ اسی تناظر میں Revival of cold war کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے۔مغربی دنیاترقی یافتہ ہونے کیلئے Modernized ہونا ضروری سمجھتے ہیں اور ماڈرن ہونے کیلئے جمہوریت، سیکولر ازم کیپٹلزم اور شخصی آزادی کے پیمانے سامنے رکھتے ہیں۔ Individual Liberty کا معیار مغرب میں بہت زور پکڑ چکا ہے، اسی عنصر کے تحت Feminism کے فلسفے کا پرچار پوری دنیا میں کیا جا رہا ہے قارئین! واضح رہے: مغربی ممالک میں خاندان اور مذہب دونوں بحیثیت ادارہ ناپید ہو چکے ہیں۔ مذہب نہ صرف سیاست بلکہ ذاتی زندگی میں بھی لاتعلق ہو چکا ہے۔ مغربی ممالک کے لوگوں کی اکثریت انکے اپنے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپنے مذہب عیسائیت سے منکر ہو چکے ہیں۔ اسی طرح خاندانی نظام اور شادی کی مذہبی اور قانونی حیثیت ختم ہو چکی ہے مگر چین مغرب کے ماڈرن ہونے کے معیار کو نہیں مانتا۔ شخصی آزادی کے نام پر ماں باپ سے علیحدگی اور شادی کے بغیر ملاپ جیسے تصورات کا مخالف ہے۔ چین میں باقاعدہ قانون موجود ہے کہ اگر بوڑھے والدین میں سے کوئی ایک اپنی جوان اولاد کی شکایت کر دے تو اس نوجوان کو حوالات جانا پڑتا ہے۔
روس امریکہ سرد جنگ کے دوران برطانوی وزیراعظم چرچل نے لوہے کا پردہ کی اصطلاح استعمال کی تھی یعنی یورپی ممالک کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ وہ کمیونسٹ ملک روس کے اشتراکی نظریات کو یورپ نہیں آنے دینگے۔ عین اسی طرح چین والے بانسوں کا پردہ استعمال کرتے ہیں۔ بانس چونکہ سب سے اونچا درخت ہوتاہے اس لئے یہ واضح کرتا ہے کہ مغرب کی طے کردہ جدیدیت کو چین اپنے ملک میں نہیں آنے دیگا۔ یوں جنگی طاقت معاشی خوشحالی کے ساتھ ساتھ مشرقی کلچر oriental culture کا بھی علمبردار ہے۔ CPEC کا، تو یہ شاہراہ معیشت نہ صرف پاکستان اور چین کیلئے ہے بلکہ قازقستان، ترکمانستان، منگولیا اور روس کیلئے بھی اہم ہے۔ واضح رہے سنٹرل ایشیاءکے ممالک اور منگولیا Land Locked یعنی سمندر سے محروم ممالک ہیں، اس لئے جس طرح چین ملک نہیں براعظم کی حیثیت رکھتا ہے اسی طرح CPEC براعظمی سطح کی معاشی شاہراہ ہے۔ اس کا کریڈٹ کسی ایک جماعت کو نہیں جاتاکیونکہ گوادر کی بندرگاہ کی مسلم ملک عمان سے خریداری کا عمل وزیراعظم چودھری محمد علی کے دور سے شروع ہوا اور دسمبر 1958ءمیں مکمل ہوا۔ سی پیک کاآغاز مشرف دور میں ہوا۔ معاہدہ پی پی پی کے دور میں اور بندرگاہ کا افتتاح موجودہ حکومت کے دور میں ہوا جس میں گارنٹر کے طور پر پاک فوج(جنرل راحیل شریف) شامل تھے۔ چین کی حکومتی عہدیداروں نے بیان دیا تھا کہ پاکستانی فوج CPEC کی حفاظت بطرز شکم مادر کر رہی ہے اور یہ CPEC آنے والی حکومتوں میں بھی جاری رہے گا۔ کیونکہ یہ براعظمی ملک چین کی ہی نہیں براعظم ایشیاءکی Life Line ہے۔
یاد رہے کہ کیمونسٹ (مغرب کے معیار کے مطابق غیرجمہوری) ہونے کے باوجود ترقی یافتہ ملک بننے کا راز تعلیم‘ ٹیکنالوجی کی ترقی اور کرپشن کا نہ ہونا ہے۔گویا ثابت ہوتا ہے کہ ترقی کیلئے جمہوریت سے زیادہ کرپشن سے نجات کی ضرورت ہے اور چین میں کرپشن کی سزا موت ہے۔