مسلمانو۔ کدھر جارہے ہو!

میرا دل نہ صرف دکھ رہا ہے بلکہ خوف سے لرز بھی رہا ہے ہمارے لیڈر اور حکمران اور بڑی بڑی غلطیاں کرتے جارہے ہیں اس کا انجام دیکھا ہے۔ عذاب الٰہی! پچھلی قوموں کو تو اللہ نے بالکل نیست و نابود کردیا۔ یہ ہمارے اوپر اللہ کا فضل اور ہمارے پیارے نبی کی دعا کا اثر ہے کہ ہم پوری طرح نیست و نابود تو نہیں ہوں گے۔ لیکن عذاب الٰہی مختلف صورتوں میں رونما ہوسکتا ہے۔
پاکستان جو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے کدھر جارہا ہے۔ سندھ میں شراب خانے بند ہو کر پھر کھل گئے۔ یہ عمل کیا اللہ کو پسند آئے گا۔ شراب نوشی گناہ کبیرہ ہے۔ اس کا صرف پینے والا ہی نہیں بلکہ اس میں کسی بھی طریقے سے ملوث ہونے والا شخص بھی اللہ کا مجرم ہے۔ کس ڈھٹائی سے ہم لوگ اس گناہ کبیرہ کو اپنے معاشرے میں پھلنے پھولنے پر مصر ہیں۔ صرف یہ گناہ کبیرہ کافی نہیں تھا کہ ہم نے اس سے بھی بڑے گناہ کبیرہ میں اپنے ہاتھ رنگنا شروع کردیئے توہین رسالت کا موجودہ قانون جو کہتا ہے کہ توہین رسالت کی سزا موت ہے اس کو منسوخ کرنا‘ جو لوگ اقتدار کی بنیاد پر یہ کام کررہے ہیں وہ تو بنیادی مجرم ہے ہی لیکن عوا م سے بھی پوچھا جائے گاکہ اتنی بڑی بڑی باتوں پر جو اسلام کے بالکل خلاف اور تمہارے نبی کی عزت اور احترام کے بالکل منافی ہیں تم چپ کیسے بیٹھے رہے جبکہ سورہ¿ توبہ میں صاف صاف لکھا ہے کسی کا ایمان اس وقت تک معتبر نہیں جب تک وہ اپنی ہر چیز سے زیادہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہ کرے۔ پھر اپنے ایمانوں کو کیوں داﺅ پر لگایا جارہا ہے اور وہ بھی انفرادی طور پر نہیں بلکہ حکومتی یعنی اجتماعی بنیادوں پر۔ رسول اللہ ہم سب کے محسن ہیں انہوں نے ہمارا آخری ٹھکانہ اچھا بنانے کے لئے اپنی پوری جان لگادی۔ ہمارا جو امتحان ہونے والا ہے اس امتحان میں کامیابی کے گر بتلائے۔ رسول اللہ نہایت حریص ہیں اس بات کے لئے کہ ان کے ہر امتی کا ٹھکانہ جنت ہو۔ اس کو جہنم کی بے رحم آگ نہ چھوئے کیونکہ وہ اس تکلیف کو برداشت نہیں کرپائے گا۔ ان کی اس شدید محبت کا صلہ ہم یہ دے رہے ہیں کہ کوئی بات نہیں کوئی آپ کی توہین کرے معاذ اللہ۔ ہم مزے سے سن لیں گے۔ آپ خود سوچیں کہ کوئی آپ کے ماں باپ کو گالی دے تو آپ اس کا سرتوڑنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ اور وہ جو آپ کا محسن آپ کے پیچھے سے پکڑ پکڑ کرگھسیٹ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ آگے مت جاﺅ۔ گڑھا ہے آگ کا گڑھا۔ اس محسن کے ساتھ آپ کا یہ سلوک اجر و ثواب کا سوال تو بعد میں آئے گا۔ دنیاوی لحاظ سے بھی یہ نہایت شرم کی بات ہے۔
تیسری کہانی بھی بڑی عجیب و غریب ہے کہ کوئی اٹھارہ سال سے کم عمر اسلام قبول نہیں کرسکتا۔ اور یہ قانون بڑے بڑوں نے بند دروازوں کے اندر صرف پانچ منٹ میں پاس کیا ہے۔ یہ قانون کہاں سے آیا۔ نہ تو دنیا میں کہیں ایسا قانون رائج ہے اور نہ دیں اس میں اس کا کوئی اشارہ ملتا ہے۔ حضرت علی جب بچہ تھے جو آپ نے اسلام قبول کیا۔ رسول اللہ نے یہ تو نہیں کہا کہ جب بالغ ہوجانا یا اٹھارہ سال کے ہوجانا پھر مجھ پر ایمان لانا۔ حضرت زید بن حارثہ غالباً دس بارہ سال کے تھے جب عکاظ کے بازار میں فروخت ہوئے اور پھر حضرت بی بی خدیجہؓ کے توسط سے رسول اللہ تک پہنچے اور مسلمان ہو کر آپ سے اتنی شدید محبت کی کہ جب ان کے باپ اور چچا ڈھونڈتے ہوئے آئے تو حضرت زید نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا اور پیارے رسول کی رفاقت کو ترجیح دی۔ کیوں نہیں کہہ دیا گیا کہ یہ تو ابھی اٹھارہ سال کا نہیں ہوا۔ ناسمجھی کی بات کررہا ہے اس کو زبرستی لے جاﺅ اور پھر اس کو جیسا جی چاہے بنالو۔ تاریخ گواہ ہے کہ محمد بن قاسم نے صرف سترہ سال کی عمر میں سندھ فتح کیا۔ اس کو اس مہم پر بھیجتے وقت حجاج بن یوسف نے کیوں نہیں کہا کہ ابھی تم چھوٹے ہو۔ اٹھار سال کے نہیں ہوئے تمہیں نہیں بھیجا جاسکتا۔ ایک نہیں ایسی سیکڑوں مثالیں دماغ پر زور ڈالنے سے ملیں گی۔
ہمارے یہاں یہ قانون اس لئے پانچ منٹ میں پاس ہوگیا اس لئے کہ ہمارے دل مردہ ہوچکے ہیں ان میں اسلام‘ اللہ اور رسول کی محبت اسلام کے قوانین کی حرمت‘ عزت اور احترام سب ختم ہوچکا ہے۔ اے میرے پیارے ہم وطنو کتنی دفعہ اس مشاہدے سے گزرے ہوگے کہ اللہ تعالیٰ کو اچھے سے برا اور برے سے اچھا کرنے میں لحظہ بھی نہیں لگتا۔ انفرادی طور پر دیکھیں تو ایک بہت تندرست و توانا شخص آناً فاناً لقمہ اجل بن جاتا ہے اور اجتماعی طور پر دیکھا جائے تو کہیں بھی کوئی قدرتی آفت یا کوئی حادثہ بہت بڑا نقصان کرسکتا ہے اور بے چارے کتنے بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں اس لئے مثل مشہور ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستے ہیں۔ افسوس ہم غافل ہیں اللہ کی بڑائی اور رسول اللہ کی تعلیمات اور ان سے محبت کے علاوہ ہم اپنے نفع اور نقصان سے بھی لاپروا ہوگئے ہیں۔ ہمارا آخرت پر سے ایمان اٹھ گیا ہے ہم اس آخری حساب کتاب سے بے نیاز ہوگئے ہیں ہم نے دنیا کا یہ اصول اپنایا ہوا ہے کہ آپ بھلے تو جگ بھلا۔ ہم خود خوش ہیں بس یہی کافی ہے۔ باقی جائیں بھاڑ میں اللہ کی ایسی بڑی بڑی حدود پار کرنے سے نہ معلوم ہمارا کیا انجام ہو۔ اس دنیا میںبھی ورنہ آخرت تو ہے ہی۔ ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ قرآن کی یہ آیت ڈرانے کے لئے بہت کافی ہے یعنی ایسی بڑی بڑی نافرمانیاں نہ کرو کہ اللہ کا قہر اور غضب بھڑک اٹھے اور پھر تم کہیں کے نہ رہو۔ نہ دنیا کے اور نہ آخرت کے۔ دعا ہی کی جاسکتی ہے اللہ میری قوم کے حکمرانوں اور عوام دونوں کو اس دنیاوی جال سے نکالے جس میں وہ صرف دنیاوی مفادات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ صراط جو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ آمین

ای پیپر دی نیشن