دورہ آسٹریلیا۔۔۔۔۔ قومی ٹیم کا کڑا امتحان شروع

پاکستان کرکٹ ٹیم ان دنوں آسٹریلیا کے دورہ پر ہے جہاں وہ میزبان ٹیم کے خلاف مکمل سیریز میں حصہ لے رہی ہے۔ سیریز کا آغاز ٹیسٹ میچز سے ہو چکا ہے۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ برسبین میں ڈے نائٹ جاری ہے۔ گلابی گیند کے ساتھ کھیلے جانے والے گابا ٹیسٹ میں میزبان آسٹریلیا ٹیم کے کپتان سٹیون سمتھ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ دونوں ٹیمیں تاریخ میں دوسرا دوسرا ڈے ٹائٹ ٹیسٹ میچ کھیل رہی ہیں۔ اس سے قبل پاکستان نے ویسٹ انڈیز جبکہ آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ کے خلاف ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ کھیل رکھا ہے۔ پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں نے اپنے پہلے ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ میں کامیابی حاصل کر رکھی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا ایک کڑا امتحان شروع ہو گیا ہے جس میں کئی سینئر کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ نوجوان کھلاڑیوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ کپتان مصباح الحق کے بارے میں چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے بھی ایک مرتبہ پھر فیصلے کا حق ان کے اوپو چھوڑ دیا ہے۔ ایسے میں جب کسی بورڈ کا سربراہ یہ کہے کہ مصباح الحق نے ٹیسٹ کرکٹ کو جاری رکھنا ہے یا نہیں یہ ان کا اپنا فیصلہ ہوگا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ سربراہ کے اس قسم کے بیانات سے لازمی بات ہے کہ کپتان کی حوصلہ کشنی ہوگی کیونکہ اس وقت آپ کا کپتان ایک مشکل دورہ پر ہے جہاں چھ سال پہلے کھیلی جانے والی سیریز میں پاکستان ٹیم کو وائٹ واش شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ قومی کرکٹرز کی عدم تسلسل کارکردگی کی بنا پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوتا ہے کہ آیا پاکستان ٹیم حریف ٹیم کے خلاف کیسا کھیلے گی۔ بہر کیف ٹیم میں چند ایک ایسے کھلاڑی اب بھی موجود ہیں اگر وہ ٹیم کے لیے کھیلیں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ٹیم آسٹریلیا کو ان کے میدانوں میں شکست نہ دے سکے۔ آسٹریلیا کی ٹیم اپنے ہوم گراونڈ پر کسی بھی ٹیم کے لیے آسان نہیں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے خلاف اس کا ٹریک ریکارڈ انتہائی شاندار ہے۔ اپنے ہوم گراونڈ میں آج تک آسٹریلیا نے پاکستان سے کوئی سیریز نہیں ہاری ہے جبکہ پاکستان نے آسٹریلیا کی سرزمین پر آخری مرتبہ 1995ءمیں سڈنی کے مقام پر ٹیسٹ میچ جیتا تھا۔ 20 سال کا وقفہ گزر چکا ہے لہذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ٹیم کے نوجوان کھلاڑی دورہ آسٹریلیا میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک قوم کا نام روشن کریں۔ سمیع اسلم اور بابر اعظم کے لیے یہ سیریز بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ کیونکہ کرکٹ حلقوں میں دونوں کھلاڑیوں کے بارے میں اچھی رائے پائی جا رہی ہے کہ ان کھلاڑیوں کو اب سینئرز کی جگہ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا۔ یونس خان کا بھی دورہ آسٹریلیا آخری دکھائی دیتا ہے کیونکہ انہوں نے دورہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف امارات میں کھیلی جانے والی سیریز میں صرف ایک آدھ اننگز میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ عین ممکن ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں دس ہزار رنز کا سنگ میل عبور کرنے کے بعد یونس خان ٹی ٹونٹی اور ون ڈے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کو بھی خیرباد کہہ جائیں۔ بہر کیف یونس خان کی پاکستان کرکٹ کے لیے بڑی خدمات ہیں جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ برسبین ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں بھی ان کی فارم واپس نہ آ سکی اور بغیر کوئی سکور بنائے پویلین لوٹ گئے۔ جبکہ اس سے قبل بابر اعظم جو اعتماد کے ساتھ اپنی اننگز کو آگے بڑھا رہے تھے 19 کے سکور پر آوٹ ہو گئے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی تاریخ رہی ہے کہ اس کی زیادہ تر کامیابیاں باولرز کی مرہون منت رہی ہیں تاہم موجود سکواڈ میں محمد عامر کے ساتھ ساتھ وہاب ریاض سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔ برسبین ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں دونوں باولرز نے چار چار کھلاڑیوں کوپویلین کی راہ دکھائی ہے جو پاکستان ٹیم کے باولنگ کے شعبہ کے لیے خوش آئند ہے۔ یاسر شاہ پہلی اننگز میں صرف دو کھلاڑیوں کو آوٹ کر سکے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ آسٹریلیا کی دوسری اننگز میں کم بیک کرتے ہیں یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم پاکستان کرکٹ ٹیم مینجمنٹ کو درست فیصلے کرنا ہونگے۔ مینجمنٹ نے محمد اصغر کو آسٹریلیا بلوایا ہے کرکٹ حلقوں کے مطابق یہ فیصلہ درست نہیں ہے اگر ان کی جگہ عماد وسیم یا پھر محمد حفیظ کو آسٹریلیا بھجوایا جاتا تو اچھا فیصلہ ہونا تھا۔ پاکستان ٹیم برسبین ٹیسٹ کے دوسرے روز مشکلات سے دو چار ہو گئی ہے۔ اظہر علی جن کے بارے میں اب چیئرمین پی سی بی شہریار خان بھی کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ وہ توقعات پر پورا نہیں اترے ہیں ایسے میں برسبین ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں انہوں نے ایک مرتبہ پھر قوم کو مایوس کیا ہے۔ اگر ان کی کارکردگی کا تسلسل اسی طرح رہا تو اس بات میں کوئی شک نہیں سلمان بٹ، کامران اکمل، سمیت دیگر نوجوان کھلاڑیوں کے لیے قومی ٹیم میں جگہ بنانا آسان ہو جائے گا۔ دو روز قبل کراچی میں پاکستان کے سب سے بڑے ڈومیسٹک سیریز قائد اعظم ٹرافی کا فائنل میچ کھیلا گیا جس میں واپڈا نے پہلی اننگز کی برتری کی بنا پر چیمپیئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ واپڈا پہلی مرتبہ قائد اعظم ٹرافی کی چیمپیئن بنی ہے جس کا کریڈٹ سابق قومی سٹار کھلاڑیوں کو جاتا ہے جن میں سابق کپتان سلمان بٹ جو واپڈا ٹیم کی قیادت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ان کے ساتھ کامران اکمل جنہوں نے قائد اعظم ٹرافی میں سب سے زیادہ ایک ہزار سے زائد رنز بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔ سلمان بٹ نے فائنل میچ کی دونوں اننگز میں ذمہ دارانہ بیٹنگ کرتے ہوئے سنچریاں سکور کیں۔ سلمان بٹ کی موجودہ فارم اور اظہر علی کی مسلسل ناقص کارکردگی کی بنا پر ٹیم مینجمنٹ کے لیے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سلمان بٹ کو پاکستان ٹیم میں کم بیک کا موقع دیا جائے۔ یہ اسی طورت میں ہوگا جب پاکستان کرکٹ بورڈ میں تعینات اعلٰی عہدیداران یہ چاہیں گے۔ چیئرمین پی سی بی شہریار خان اپنی بورڈ میں آخری اننگز کھیل رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ پاکستان کرکٹ کو تماشہ بنائے بغیر اچھے فیصلے کریں۔ ویسے ان کے بارے میں عام تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ وہ سلیکشن کمیٹی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ امارات میں کھیلی جانے والی سیریز میں کامیابی تو پاکستان ٹیم کا مقدر بن جاتی ہے تاہم اسے انگلینڈ، آسٹریلیا جیسے دوروں میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے جس کے بارے میں کوئی جامعہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ دورہ آسٹریلیا کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کی تیاریاں شروع کر دینی ہے ان تیاریوں کی آڑ میں پاکستان ٹیم کی دورہ آسٹریلیا کی کارکردگی پر پردہ نہ ڈال دیا جائے بلکہ کھلاڑیوں کو اس حوالے سے باز پرس لازمی کی جانی چاہیے۔ کیا ایسا ممکن ہو سکے گا۔ یونس خان اگر ناکام ہیں تو انہیں آرام ایک ٹیسٹ میچ میں آرام دیا جائے ہو سکتا ہے کہ باہر بیٹھ کر وہ کوئی اپنی خامیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں۔

ای پیپر دی نیشن