اے زمینِ وطن … ہم گنہگار ہیں

لڑائی میں جو جان سے گیا، وہ شہید
جو بچ کر واپس آ گیا وہ غازی
جس نے ہتھیار ڈال دیئے وہ نیازی
آج 16 دسمبر ہے آج کی تاریخ میں 2 سانحات پیش آئے۔ دونوں ہی نہایت دل دوز ہیں۔ 16 دسمبر 1971ء مملکت خداداد پاکستان بنیے کی سازشوں اور اپنوں کی نااہلی سے دولخت ہو گیا تھا اور 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور میں تاریخ کی بدترین دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کی حفاظت فرمائے اور اس کے خلاف جو بھی دشمن سازش کر رہے ہیں اللہ ان کو نیست و نابود کرے۔ آمین! سقوط ڈھاکہ وہ المناک اور شرمناک واقعہ ہے کہ ہمارے بزرگ سناتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے ہیں اور نئی نسلیں حیران و پریشان لیکن شرمندہ ہونے والے آج بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ اس ملک کو دولخت کرنے میں غلام ابن غلام آج بھی غلامی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ ملک کو دولخت ہونے کے 36 برس گزر جانے کے بعد بھی صحیح حقائق عوام کے سامنے نہیں آ سکے اور نہ ہی شاید مستقبل قریب میں آنے کی توقع ہے اور نہ ہی ہم اپنے بچوں کو "صحیح اور غیر جانب دار" تاریخ پڑھاتے ہیں۔
سقوط ڈھاکہ سے متعلق مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ صدیق سالک کی کتاب ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ پڑھیں تو کافی حد تک مشرقی پاکستان کے مسائل سمجھ میں آتے ہیں۔ اور اگر الزامات کا دفاع جنرل نیازی کی کتاب ’’مشرقی پاکستان کی غداری‘‘ پڑھیں تو ان کے دلائل کا پلڑہ بھی بھاری دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کسی قوم کے مستقبل کا فیصلہ جمہوری انداز میں نہیں ہوتا تو پھر ملٹری ایکشن ناگزیر ہو جاتا ہے۔ پاک فوج ہمیشہ اس وطن کے دفاع کے لیے آخری حد تک گئی ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اقتدار کے روایتی مراکز کو ملک میں جمہوریت کسی صورت بھی قبول نہیں تھی اور مشرقی پاکستان کیونکہ روایتی طور پر جمہوریت پسند خطہ تھا جس میں متوسط طبقہ کافی بااثر تھا اس لئے ان کی حکومت کا مطلب مغربی پاکستان کے متوسط طبقہ کی بیداری ہوتا جو کہ اسٹیبلشمنٹ اور ان کے حواریوں کو قطعاً قبول نہیں تھا۔ مکتی باہنی یا عوامی لیگ مسئلہ نہیں تھے، مغربی پاکستان کے جاگیردار، وڈیرے اور جرنیل یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ حکومت سازی کا اختیار عوام کو منتقل کر دیا جائے۔ اس لئے اس سے پہلے کہ یہ اثراتِ ’’بد‘‘ مغربی پاکستان میں پھیلتے، انہوں نے اس عضوِ "بیمار" کو ہی کاٹ دیا جہاں سے یہ مرض پھیل سکتا تھا۔ فیض احمد فیض کی نظم ڈھاکہ سے واپسی پر؎
ہم کہ ٹھرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختم دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کئیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے چاروں کردار "اندرا، مجیب ، بھٹو اور یحیٰی" عبرتناک انجام تک پہنچے۔ مسلم دنیا کی تاریخ کے تین بڑے سانحے ہیں: سقوطِ بغداد، سقوطِ دلی اور سقوطِ ڈھاکا۔ لیکن ان سانحوں میں سب سے بڑا سانحہ سقوطِ ڈھاکا ہے۔ سقوطِ بغداد اور سقوطِ دلی داخلی کمزوری کا نتیجہ نہیں تھے لیکن سقوطِ ڈھاکا میں مقامی آبادی دشمن کے ساتھ کھڑی ہو گئی یا اسے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ سقوطِ ڈھاکا میں مسلم فوجوں نے تقریباً لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیئے۔ سقوطِ ڈھاکا کے نتیجے میں ہمارے 90 ہزار فوجی گرفتار ہوئے اور انہوں نے دشمن کی قید میں طویل مدت گزاری اس کے باوجود کہ پاکستان کا مغربی بازو پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر موجود رہا، تاہم 42 سال گزرنے کے باوجود نہ سقوطِ ڈھاکا کے ذمے داروں کا تعین ہوا اور نہ اس سلسلے میں کسی کو سزا دی گئی۔ جس قوم نے بھی اپنے ماضی سے سبق نہ سیکھا ہو وہ قومیں ہمیشہ تباہی و بربادی کا ہی پیش خیمہ بنتی ہیں۔یہ قانون فطرت ہے کہ جب لاقانونیت کی انتہا ہو جائے تو پھر قدرت کا ایک قانون حرکت میں آتاہے۔

طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)

ای پیپر دی نیشن