سلام ہے تم کو ارض پاک کے شہدائ

Dec 17, 2017

عظیم چودھری

تقریباً بیس برس قبل ڈھاکہ جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک پیشہ وارانہ مقصد تھا۔ وہاں کوئی ذاتی واقف نہ تھا۔ جانے کے بارے میں جذباتی بھی تھا اور ایک اجنبیت کا احساس بھی۔ سابق وزیر مخدوم حامد رضا گیلانی سے میں نے تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ڈھاکہ پہنچ کر صلاح الدین قادر چودھری کا پتہ کرنا اور بس صرف اس کو میرا حوالہ کافی ہے۔ میں نے اس بات کو سن تو لیا مگر میرا خیال نہ تھا کہ صلاح الدین سے مجھے کوئی خاص مدد حاصل ہو گی یا حالات کی واقفیت ہو سکے گی۔ سید منور حسن صاحب سے بھی میں نے ذکر کیا تو انہوں نے جناب مطیع الرحمان نظامی صاحب کے نام ایک بند لفافہ مجھے دے دیا۔ میں نے یہ مناسب سمجھا کہ جناب حامد سرفراز صاحب کو بھی اپنے ہمراہ لے جاﺅں۔ ملک حامد سرفراز عوامی لیگ کے مغربی پاکستان میں واحد امیدوار تھے۔ میری کافی شناسائی تھی۔ انہوں نے شکریہ کے ساتھ میری دعوت قبول کر لی۔
ائرپورٹ کی عمارت میں داخل ہوا تو مکمل اجنبی تھا۔ ایسا جیسا کہ دہلی کے ائرپورٹ پر خود کو محسوس کر رہا تھا۔ سبز پاسپورٹ، اردو زبان بنگلہ سے ناواقفیت، امیگریشن آفیسر نے یکے بعد دیگرے کئی سوالات کئے۔ تقریباً نفرت کیساتھ پاسپورٹ پر مہر لگائی اور میں مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش میں داخل ہو گیا۔ ملک حامد سرفراز صاحب کے کوئی پرانے ساتھی ان کو خوش آمدید کہنے کیلئے وہاں موجود تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں ان دوستوں کے ساتھ جاﺅں گا اور میری واپسی کا تم فکر نہ کرنا۔ ویسے میں ڈھاکہ کلب میں ٹھہروں گا مگر ہم ملتے رہیں گے۔
میں ائرپورٹ سے سونار گاﺅں ہوٹل تقریباً ایک گھنٹہ میں پہنچ گیا۔ وہ اجنبیت جس کو ختم کرنے کیلئے حامد سرفراز صاحب کو میں ساتھ لیکر گیا تھا وہ ختم نہ ہو سکی بلکہ اس میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ہوٹل میرے گمان سے بھی بہت مہنگا تھا۔ میرے پاس اس روز کرنے کا کوئی کام نہ تھا سو میں نے آپریٹر سے کہا کہ مجھے صلاح الدین قادر چودھری کا فون نمبر مل سکتا ہے اس نے کہا میں ملا دیتا ہوں۔ لمحہ بھر میں ایک بھاری بھرکم شخصیت کی پاٹ دار آواز سننے کو ملی۔ میں نے کہا کہ مجھے مخدوم حامد رضا گیلانی صاحب نے آپکے بارے میں بتایا تھا تو جواب ملا میں ابھی آ رہا ہوں۔
کوئی پندرہ منٹ میں ایک طویل القامت رعب دار نفیس شخص دروازہ سے داخل ہوا میں اٹھ کھڑا ہوا اور وہ سیدھا میرے پاس آ گیا۔ نام پوچھا اور کہا میرے ساتھ چلیں حامد رضا میرے چچا ہیں۔ مجھے اپنے گھر لے گئے آنے کا مقصد دریافت کیا۔ دن بھر اپنی سنانے اور میری سنتے رہے رات کو کچھ احباب کو بھی مدعو کیا۔ یہ محسوس ہوا کہ میں اپنے ہی گھر میں ہوں۔ آدھی رات تک پاکستان اور بنگلہ دیش کی سیاسی صورتحال پر گفتگو ہوتی رہی۔ ہر ایک کے پاس کہنے سننے اور محبت بھری یادوں کی داستان تھی۔
اگلے روز میں نے نظامی صاحب کو فون کیا انہوں نے گاڑی بھیجی۔ رقعہ انکے حوالے کیا۔ انہوں نے پڑھا اور نہایت اعتماد اور بزرگ کے طور پر آنے کا مقصد اور مدد کی پیشکش کی تو میں نے کہا کہ ایک سرکاری ٹینڈر ہے اسکی تیاری کرکے آیا ہوں۔ بس وقت پر متعلقہ محکمہ کے افسر کے پاس پہنچا دوں گا۔
سرکاری ٹینڈر جمع کروا کے میرے پاس چار دن باقی تھے میں نے تمام اہم مقامات دیکھے مسجد بیت المکرم میں جمعہ کی نماز بھی ادا کی۔پریس کے بعض افراد کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی۔ سابق بھارتی وزیراعظم آئی کے گجرال، کلدیپ نیر کے ساتھ بھی ملاقات کا موقع ملا۔ گجرات جہلم چکوال اور پنڈی کے بارے بہت سے سوال کرتے رہے۔ پاک بھارت تعلقات پر ان کا نظریہ بھی سنا۔ کشمیر کے بارے انکی رائے بھی جانی، غرض وہ اجنبیت جس کا مجھے احساس تھا اس کو معلوماتی دورہ میں تبدیل کرنے کا موقع ملا۔ بہت سے لوگوں کیساتھ ملاقات ہوئی اکثریت کو عوامی لیگ سے بیزار پایا، حسینہ واجد کی کرپشن، پاکستان دشمنی، بھارت کی بالادستی ہر کوئی کوستاتھا، دین سے محبت، کشمیر کی آزادی بھی وہاں گفتگو کا حصہ رہی۔
شیخ مجیب الرحمان کے بارے منفی اور مثبت گفتگو بھی لوگ کرتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے وہاں تقریباً نفرت کیساتھ بات کرتے تھے۔ پاکستان کےساتھ خوشگوار، برادرانہ تعلقات ہر کسی کے دل کی آواز ہے۔ رائے تھی کہ ہاں ہماری تمام محبت اور ایثار پاکستان کیلئے تھا مگر اب جو ہو چکا ہے ہم نے اس کو اور آپ نے بھی اس کو تسلیم کر لیا ہے۔ لہٰذا کوشش ہونی چاہئے کہ رابطہ زیادہ ہو۔ غلط فہمی پیدا ہی نہ ہو بھارت تو سازش کرتا رہے گا۔
جنرل اعظم خان اور صاحبزادہ یعقوب وہاں لوگوں کے دلوں میں اب بھی بستے ہیں۔ بعض افراد جنرل ایوب خان کے بارے بہت مثبت رائے نہیں رکھتے لیکن بقول ایوب خان آزادی کے وقت اعلیٰ سول سروسز میں مشرقی پاکستان کا لے دے کے ایک افسر تھا اس لئے ضروری تھا کہ مغربی پاکستان یا مہاجرین میں افسروں کا انتخاب کیا جائے، لیکن مشرقی پاکستان کے تعلیم یافتہ طبقوں میں یہ بات صوبے میں دخل اندازی تصور کی جاتی تھی اور یوں عناد پیدا ہونا شروع ہوا۔ مقامی سیاستدان اپنے علاقوں میں سرمایہ کاروں کو صنعت بھی نہیں لگانے دیتے تھے۔ بقول ایوب خان صوبے کے رہنماﺅں کو بڑی مشکل تھی انکے سامنے دو ہی راستے تھے ایک تو ایمانداری سے کام لےکر صورتحال کو بہتر کرتے اور اپنی خامیوں کو دور کرتے اور سماجی اور اقتصادی صورتحال کیلئے نوجوانوں کو باصلاحیت بناتے اور دوسرا راستہ یہ تھا کہ سیاسی دباﺅ بڑھایا جائے اور سارا الزام مغربی پاکستان کے سر تھوپ دیں۔ مشرقی پاکستان کے رہنماﺅں نے آسان اور مقبول راستہ چنا اور صوبے میں سیاسی شورش پیدا کردی۔ لوگ بھڑک اٹھے اور سیاستدانوں کے راستے آسان ہو گئے۔
بھارت جانتا تھا کہ شیخ مجیب الرحمان خود پسند اور خود غرض سیاستدان ہے اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے پاکستان کو نقصان پہنچانا تو بھارت کی پالیسی کا بنیادی حصہ ہے۔ اگرچہ سازش کیس میں شیخ مجیب الرحمن بھارت کا آلہ کار بن چکا تھا۔ ایوب حکومت نے اس کو درست گرفتار کیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان نے جنگ ستمبر کے بعد اپنے چھ نکات کا اعلان کر دیا تھا۔ بھارت نے اپنی جارحانہ پالیسی کے تحت ایوب خان کی گرفت کمزور ہونے پر تقریباً ایک لاکھ بنگلہ دیشی نوجوانوں کو گوریلا تربیت دینی شروع کر دی تھی۔ جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کا خیال تھا کہ تقریباً 42 ہزار فوجی جوان ساڑھے چار کروڑ انسانوں کو اپنی مرضی کے ساتھ چلا لیں گے اور پھر 16 دسمبر کا دن ہماری قومی زندگی میں سیاہ ترین دن بن کر رہ گیا۔
بنگلہ دیش بھارت کی ایک کالونی ہے، یہاں پاکستان کے ساتھ وفا کرنے والوں کا اس نے قتل عام شروع کروا رکھا ہے ہزاروں کی تعداد میں سیاسی قیدی جیلوں میں زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں، پاکستان سے وفا کرنے والوں کی زندگی تنگ ہو چکی ہے، پھانسی ان کا مقدر ہے اور ہماری حکومت اور ارباب اقتدار کی زبان بندی ہے۔ سہ فریقی معاہدہ میں تحریر تھا کہ کسی پر جنگی جرائم پر مقدمہ نہ چلے گا، بنگلہ دیش 145 دیگر افراد پر بھی جنگی جرائم کے ارتکاب کے مقدمات چلانا چاہتا ہے مگر اب تک جو لوگ اس کا شکار ہوئے ان میں 91 برس کے پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمان نظامی سابق وزیر، علی احسن مجاہد جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی سابق وزیر محمد قمر زمان، ملا عبدالقادر، میر قاسم علی، صلاح الدین قادر چوہدری کو پھانسی دی جا چکی ہے، یہ سلسلہ ابھی بند نہیں ہوا۔ وہ تمام افراد جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ اگلے برس انتخاب جیت سکتے ہیں ان کو پابند سلاسل کیا جا رہا ہے، بعض زندگی بچانے کیلئے ملک سے باہر جا چکے ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم جس طرح بھی ہو سکے ایسے موتیوں کی حفاظت کریں تاکہ مودی اور حسینہ واجد جس جارحیت، سازش اور گھمنڈ کا اقرار کرتے ہیں وہ ٹوٹ جائے اور 16 ہی دسمبر کو پشاور میں ہمارے بچوں کو جس بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا ان کی عظمت اور انکے والدین کے حوصلوں کو بلند کیا جا سکے۔ 16 دسمبر کے دونوں زخم کبھی مندمل نہ ہونگے اور اگر ہم نے یگانگت، حب الوطنی، یقین، اعتماد اور اپنی صفوں میں چھپے دشمنوں کو نکال باہر نہ کیا تو ہر سال 16 دسمبر آنسوﺅں کے ساتھ ہی گزرے گا۔ سلام ہے ان شہیدوں کو جو ارض پاک کی محبت میں اپنی جان دیتے ہیں۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔

مزیدخبریں