اسلام آباد (صلاح الدین/ نمائندہ نوائے وقت) آئینی ماہرین نے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریف فیملی اور عمران خان کو بچالیا گیا ہے جبکہ جہانگیر ترین کو برطرف کردیا گیا ہے، سقوط ڈھاکہ سے ایک دن قبل سپریم کورٹ کے تین تاریخی فیصلوں نے نئی بحث کو جنم دے دیا۔ ہرسیاسی ایشو کو عدالتوں میں گھسیٹ لانے کی روش درست نہیں۔ ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے حدیبیہ اور نااہلی مقدمات کے فیصلے آئین و قانون کے مطابق ہیں ، سپریم کورٹ نے سیاسی خلا پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی، سیاسی معاملات عدالتوں میں آنے سے پارلیمنٹ جہاںسپریم کورٹ کے عزت و قار اور اہمیت میں اضافہ ہوا وہاں اس کے ساتھ ساتھ منفی اور مثبت پروپیگنڈے کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سپریم کورٹ نے عمران کو کلین چٹ نہیں دی بلکہ فارن فنڈنگ کا معاملہ الیکشن کمشن کو بھجوا دیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ عدلیہ بحالی تحریک کے سربراہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ حشمت حبیب نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے وقار کو بچانا چاہتی ہے تو فوری طور پر میڈیا پر پروپیگنڈا اور تبصروں پر پابندی عائد کرے۔ چوہدری قمرایڈووکیٹ نے کہا کہ کہ عمران کو اہل قرار دینے کے فیصلے پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کی طرح پرویز مشرف کے ریڈ وارنٹ جاری کیوں نہیں کئے جاتے۔ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ طلعت حسین نے کہا حدیبیہ کیس کے فیصلے میں نیب کو مزید تفتیش کا وقت دیا جاسکتا تھا نواز شریف کا کیس آٹھ سال بعد کھل سکتا ہے تو حدیبیہ کیوں نہیں، نااہلی کیس میں عمران کو اہل جبکہ ترین کو میرٹ پر نااہل قرار دیا گیا۔محمد عثمان بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک ہی نوعیت کے دو کیسوں میں سپریم کورٹ کے متضاد فیصلے سمجھ سے بالاتر ہیں۔ سازش کے تحت پارلیمنٹ کو بے توقیر کیا جا رہا ہے۔ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ محمد صدیق خان بلوچ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق ہے۔ قانون کی بالادستی قائم ہوئی۔ ایڈووکیٹ عامر عباس نے کہا کہ فیصلوں کے تناظر میں سپریم کورٹ کو بیلنسنگ کورٹ کہنا درست نہیں بدقسمتی ہے عدالتوں کے پاس بیلنسنگ فیکٹر نہیں ہوتا عدالتیں حقائق دیکھ کر فیصلے جاری کرتی ہیں۔ کامران مرتضی ٰ نے کہا کہ ہم پہلے پانامہ کیس سے بھی متفق نہیں تھے اور اب ناہلی کیس کے فیصلے سے بھی متفق نہیں،ایسے فیصلوں سے سیاسی لوگوں کی پٹیشنوں کی لائن لگ جائے گی۔