46سال قبل،16دسمبر1971 کو سقوط ڈھاکہ ہماری تاریخ کا ایک ایسا قومی المیہ ہے کہ جس کے تذکرے سے ہی تلخیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ 14 اگست 1947 کو عالمی نقشے پر جب پاکستان ابھرا تو وہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت تھا لیکن 24سال بعد اس کا ایک حصہ جو مشرقی پاکستان کہلاتا تھا ،بنگلہ دیش بن گیا۔ چھیالیس سال گزرنے کے باوجود ہم اس بات کا تعین نہ کر سکے ہیں کہ مملکت پاکستان کے دو لخت ہونے کی اصل اور مرکزی وجہ کیاتھی۔ یہ تو درست ہے کہ ایسے واقعات کسی ایک وجہ سے رونما نہیں ہوتے اس کے پس منظر میں تواتر سے ایسے عوامل ہوتے ہیں جن کا نتیجہ اس طرح کے المناک منظر نامے ہوتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں ، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔
یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس کے تلخ نقش ہماری تاریخ سے کبھی نہ مٹائے جا سکیں گے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے اس سانحہ سے ہمارے حکمرانوں نے کیا کوئی سبق سیکھا؟ ہمارے دانشور، علمائے کرام، سفارت کار، ماہرین تعلیم، عدلیہ اور میڈیا نے کیاان 46سالوں کے دوران اپنا اپنا محاسبہ کیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا تجزیہ کرنے سے ایک ہی جواب آتا ہے کہ بد قسمتی سے من الحیث قوم ہم نے صرف لفظی اعتبار سے اس سانحے کو یاد رکھا لیکن اصلاح احوال یا مستقبل کیلئے کوئی ایسی حکمت عملی اختیار نہ کی جس سے ظاہر ہوتا کہ ہم نے اس المیے سے کوئی سبق سیکھا ہے۔ کاش اگر ہم سقوط ڈھاکہ کے عمل سے سبق سیکھ لیتے تو آج ہم مہاجر، پنجابی، پشتون، سندھی اور بلوچی ہونے کے بجائے صرف اور صرف پاکستانی ہوتے۔ جس طرح امریکی، یورپی، عربی، ایرانی اور افغانی تمام تر انتظامی اور علاقائی گروپ بندی کے باوجود اپنے تشخص پر فخر کرتے ہیں۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد مجھے دو بار بنگلہ دیش جانے کا موقع ملا ۔ایک بار سابق صدر پرویز مشرف کے ہمراہ اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے بطور ٹی وی رپورٹر(اس دورے میں انہوں نے بنگلہ دیشی عوام سے معذرت کی تھی، ان ایام میں بیگم خالدہ ضیاءبنگلہ دیش کی وزیر اعظم تھیں)۔ دوسری بار میں ایک نجی دورے پر بنگلہ دیش گیا اس طرح مجھے بنگلہ دیش کو حکومتی سطح کے ساتھ ساتھ نجی حیثیت سے بھی دیکھنے کا موقع ملا۔اگر میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے حالات کا تقابل کروں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ ان 46سالوں کے دوران پاکستان اور بنگلہ دیش کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور بین الاقوامی حیثیت میں کیا تبدیلی واقع ہوئی؟ یہ بات افسوسناک ہے کہ اس عرصے میں عالمی سطح پر پاکستان کا مقام بنگلہ دیش کی نسبت کم تر ہوا ہے۔یہ وجوہات ہم سب ہی کو معلوم ہیں۔ہمیں ڈھاکہ کے سانحے سے سبق حاصل کرنا ہے۔ ہمیںان عوامل پر نظر رکھنی ہے جس کی بناءپر پاکستان دو لخت ہوا۔یہ بات کس قدر افسوس ناک ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو ان حقائق سے آگاہ نہیں کر رہے جس کی بناءپر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔
سقوط ڈھاکہ کی وجوہات معلوم کرنے کیلئے دسمبر 1971میں حمود الرحمن کمیشن مقرر کیا گیا جس کی رپورٹ 1974میں اس وقت کے صدر اور چیف ایگزٹیو، چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور دنیا کے پہلے سول مارشل لاءایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کی گئی لیکن اس رپورٹ کو مکمل طورپر آج تک منظر عام پر نہیں آنے دیا گیا۔ 2000ءکے آخری مہینوں میں اس خفیہ رپورٹ کے کچھ اقتباسات ہندوستانی اخبار میں شائع ہونے لگے تو مجبوراً سابق صدر مشرف کو اس رپورٹ کے کچھ حصوں کو غیر مخفی کرنا پڑا ۔حیرانی اور تشویش کی بات یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے فورا ً بعد ہمارے سیاسی لیڈروں اور عسکری قوتوں نے ایک دوسرے پر بلند بانگ الزام تراشی کرتے ہوئے قوم کو اس بحث میں الجھائے رکھا کہ ملک توڑنے کا ذمہ دار کون ہے؟حمود الرحمن کمیشن رپورٹ یحییٰ اور بھٹو گٹھ جوڑ کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ یحییٰ خان کی آنکھیں تب کھلیں جب مجیب الرحمن مشرقی پاکستان کی 162نشستوں میں سے 160 نشستیں جیت کر انتہائی طاقتور بن گئے دوسری طرف بھٹو ہوس اقتدار کی بناءپر حزب اختلاف کے لیڈر کا آئینی کردار ادا کرنے پر تیار نہ تھے۔ یحییٰ اور بھٹو کا الحاق ہوس اقتدار کی بڑی سنگدل مثال ہے۔
حمود الرحمن کمیشن کے جو حصے پبلک ہوئے انکے مطالعے سے بہت سے عقدے کھل جاتے ہیں لیکن یہ حقائق عوام کے سامنے نہیں آنے دئیے گئے۔پاکستان کے تدریسی نصاب میں بھی سقوط ڈھاکہ کی اصل وجوہات پڑھائے جانے سے اجتناب کیا جاتا ہے اور ہمارا میڈیا بھی ان عوامل پر اس طرح بحث کر کے عوام کی رہنمائی نہیں کر رہا جو اس المناک سانحے کا علمی، فکری اور قومی تقاضہ ہے۔ حمود الرحمن کمیشن تین ارکان پر مشتمل تھا ۔ بری ، بحری اور فضائی افواج کے تین نمائندے بھی کمیشن کی معاونت کیلئے رکھے گئے ۔ کمیشن کی ساری کارروائی بند کمرے میں ہوئی۔ 213 گواہوں کے بیانات لینے اور متعدد دستاویزات کا معائنہ کرنے کے بعد کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ یہ سنگین شکست بہت سے سیاسی ،اخلاقی ، نفسیاتی اور عسکری عوامل کے مجموعی اور طویل تسلسل کا نتیجہ ہے۔پیرا گراف 80میں کمیشن شیخ مجیب الرحمن کے طرز عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے بیان کرتا ہے ۔ہم یہ بتا نا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ شروع شروع میں چھ نکات کا حصول شیخ مجیب الرحمن کا حتمی مقصد نہ تھا مگر الیکشن کے بعد وہ خود اپنے ہی نعرے کے اسیر ہو گئے۔کمیشن پیرا نمبر 81میں ذکر کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے بھی سیاسی بصیرت کی کمی کا ثبوت دیا۔اگر شیخ مجیب الرحمن کا ضدی رویہ مصالحت کا راستہ روک رہا تھا تو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بھی اتنے ہی ضدی ثابت ہوئے ۔کمیشن پیرا نمبر83میں لکھتا ہے کہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ اپنی عددی طاقت کے باوجود پیپلزپارٹی اس جمہوری ذمہ داری(حزب اختلاف) سے کیوں کترا رہی تھی۔ پیرا نمبر84میں کمیشن تحریر کرتا ہے کہ جنرل یحییٰ کو معلوم ہونا چاہئیے تھا کہ سیاسی مسائل صرف سیاسی انداز ہی میں حل کئے جا سکتے ہیں اور اپنے ہی شہریوں پر فوجی حل نہیں ٹھونسا جا سکتا....پیرا گراف نمبر117 میں کمیشن تحریرکرتا ہے کہ یہ صورت حال (اس وقت کی )فوجی قیادت کی اہلیت اور کارگزاری پر ایک بد نما داغ ہے۔ پیرا118میں کمیشن بیان کرتا ہے ....جنرل یحییٰ نے نہ صرف ملک کو ایسی جنگ میں دھکیلنے کی حماقت کی جس میں مثبت نتائج یا ہماری فتح کا کوئی امکان نہ تھا۔ بلکہ بعد میں خود ہی ہتھیار ڈالنے کی اجازت بلکہ ترغیب بھی دی اور پاکستان کو ایسی شرم ناک شکست سے دوچار کیا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ سفارشات کے صفحات نمبر 351تا356 کے پیراگراف ایک اور دو میں کمیشن نے سفارش کی ہے کہ جنرل یحییٰ خان، جنرل عبدالحمید خان، جنرل ایس ایم پیرزادہ، میجر جنرل عمر، جنرل گل حسن اور میجر جنرل مٹھا پرعام عدالت میں مقدمہ چلایا جائے یا کورٹ مارشل کیا جائے کہ انہوں نے ایوب خان کی حکومت غصب کرنے کی مجرمانہ سازش کی اور مغربی اور مشرقی پاکستان میں صحیح طریقے سے جنگ لڑنے اور اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں مجرمانہ غفلت برتی۔قوموں کی تاریخ میں آزمائشوں اور چیلنجز کا آنا ایک فطری عمل ہے۔ تاریخ کا دھارا تسلسل سے رواں دواں رہتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ ملک میں جمہوری قدروں کو فروغ دیں، آئین اور قانون کی حکمرانی کو اولیت دیں۔ عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں اور ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو فوقیت دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔