پاکستان‘ چین اور افغانستان دہشتگردی کیخلاف حکمت عملی بنانے پر متفق‘ مفاہمت سے امن بحال کرنے کا عزم
کابل میں سہ فریقی مذاکرات کے دوران پاکستان، افغانستان اور چین نے انسداد دہشت گردی اور سکیورٹی تعاون بڑھانے سے متعلق مفاہمتی یادداشت پر دستخط کر تے ہوئے کہا ہے کہ علاقائی روابط بڑھانے سے افغانستان میں امن قائم ہوگا، دہشت گردی کیخلاف مشترکہ حکمت عملی بنائیں گے، چین کے ون بیلٹ ون روڈ کی حمایت کرتے ہیں، خطے میں معاشی ترقی، امن واستحکام کیلئے دہشتگردی کیخلاف مشترکہ حکمت عملی ناگزیر ہے۔تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سیاسی معاونت کو بروئے کار لا کر افغانستان میں قیام امن کی راہ ہموار کی جائے۔مذاکرات میں افغانستان کی ترقی کیلئے پاکستان اور چین کی جانب سے مختلف شعبوں میں تکنیکی معاونت کی فراہمی سے متعلق امور زیر بحث آئے،سہ فریقی مذاکرات کے پہلے دور کے اختتام پر تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان انسداد دہشت گردی اور سکیورٹی تعاون بڑھانے سے متعلق مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔مفاہمتی یادداشت پر دستخط کی تقریب افغان صدارتی محل میں ہوئی اور اس موقع پر افغان صدر اشرف غنی بھی موجود تھے بعد ازاں پاکستان، افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے کہا کہ افغانستان نے بہت مسائل برداشت کئے۔افغانستان میں تشدد بڑھ رہا ہے۔اعتماد سازی مل بیٹھنے سے ہی ممکن ہے۔ہم ایک دوسرے پر الزامات عائد کر کے امن حاصل نہیں کر سکتے۔شاہ محمود قریشی نے کہا پاکستان افغانستان کا اہم ہمسایہ ملک ہے۔پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن اور مصالحتی کوشش کی حمایت کی ہے۔ وہ لوگ جو عسکری حل کی بات کرتے تھے آج مفاہمت اور بات چیت کے حامی ہیں ،سرحد کے دونوں طرف بہت سے لوگ مارے جا چکے ہیں، بہت نقصان اٹھا چکے اب آگے بڑھنے کا وقت ہے ، افغانستان کا امن ہم دونوں ممالک کے مفاد میں ہے ، آپ کی خوشیوں میں ہماری خوشیاں ہیں ، آئیں عملی طور پر آگے بڑھیں۔چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہاہم ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد نہیں کر سکتے۔ہم ایسے ہمسایہ ملک ہیں جنہیں جدا نہیں کیا جا سکتا۔ چین دونوں ملکوں کے دوست کی حیثیت سے دونوں میں مذاکرات کے ذریعے اعتماد سازی کیلئے کردار ادا کر رہا ہے۔ جنگیں کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں۔ آج کے مذاکرات کا مقصد بھی یہی تھا پاکستان افغانستان کو قریب لایا جائے۔
افغانستان میں بدامنی کے اثرات پورے خطے میں مرتب ہوئے۔ افغانستان سے دہشت گردی بھی علاقائی ممالک تک پھیلی‘ پاکستان تو افغانستان میں دہشت گردی کے باعث براہ راست متاثر ہوا بالواسطہ طور پر چین‘ ایران اور وسط ایشیاء کی ریاستوں سمیت روس میں بھی دہشت گردی کے اثرات محسوس کئے گئے۔ دہشت گردی میں اضافے کے خدشات کے پیش نظر اکثر علاقائی ممالک افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمہ اور امن کے قیام کیلئے کوشاں رہے ہیں۔ مختلف اوقات میں افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے امن کانفرنسیں ہوچکی ہیں۔ یہ ایسی ہی کانفرنسوں کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ ماہ روس میں ہونیوالی کانفرنس میں پاکستان‘ چین‘ افغانستان‘ ایران‘ امریکہ اور بھارت کے ساتھ طالبان کے پانچ رکنی وفد نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں بھارت اور امریکہ مبصر کے طور پر شریک ہوئے۔ امریکہ کا مبصر کے طور پر اجلاس میں شریک ہونا سمجھ میں آتا ہے لیکن امن کے دشمن اور پاکستان کے بدخواہ بھارت سے خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ طالبان ایسی کسی کانفرنس میں پہلی مرتبہ شریک ہوئے۔ کبھی امریکہ و افغان انتظامیہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار نہیں تھی۔ دوسری طرف طالبان بھی انکے ساتھ ہاتھ ملانے کے روادار نہیں تھے۔ امریکہ نے طاقت کے ذریعے افغانستان سے طالبان حکومت کا خاتمہ تو کر دیا مگر مضبوط سیاسی سیٹ اپ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ افغانستان میں قیام امن کیلئے طاقت کا مزید استعمال بے سود ہے اس کا امریکہ نے بھی ادراک کرلیا ہے۔ گو امریکہ کو افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے طالبان سے براہ راست مذاکرات کا احساس ڈیڑھ دہائی بعد ہوا مگر دیرآید درست آید۔ افغان مسئلہ کا بامقصد مذاکرات ہی درست اور دیرپا حل ہے۔
امریکہ پاکستان پر افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے کردار ادا کرنے کا تقاضا کرتا رہا مگر طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے گریز کی پالیسی اختیار کئے رکھی۔ پاکستان پر ایک طرف امریکہ افغانستان میں امن کیلئے کردار ادا کرنے کا تقاضا کرتا رہا‘ دوسری طرف افغانستان میں بدامنی کا ذمہ دار پاکستان کو بھی قرار دیتا رہا۔ پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کے ساتھ سخت نتائج کا سامنا کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ جس سے مفاہمت کی فضا مکدر اور کشیدگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے افغانستان کے حوالے سے اصولی اور دوٹوک موقف کا اظہار کیا جس پر صدر ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانات آئے مگر پاکستان نے کوئی اثر نہ لیا تو ٹرمپ انتظامیہ کو اپنے رویے میں تبدیلی لانا پڑی۔ ایک خط کے ذریعے وزیراعظم سے افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے تعاون کی درخواست کی گئی‘ یہی مناسب سفارتی طریقہ ہے۔ پاکستان نے اس پر اپنا کردار ادا کیا‘ سہ فریقی کانفرنس کا انعقاد بھی اسکی ایک کڑی ہے۔
امریکہ کی طرح افغان انتظامیہ بھی پاکستان پر الزمات کی بھرمار اور بے جا تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کیخلاف جارحانہ رویے کے بعد افغان انتظامیہ کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانی چاہیے۔ اس کا عندیہ سہ فریقی کانفرنس کے بعد افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کے مثبت بیانات سے ملتا ہے۔ وہ درست کہتے ہیں۔ افغانستان نے بہت مسائل برداشت کئے ہیں۔ انکی دانست میں افغانستان میں اب بھی تشدد بڑھ رہا ہے‘ اس میں یقیناً دو رائے نہیں کہ امریکہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہے۔ افغان انتظامیہ بھی مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ پاکستان پہلے ہی طالبان کو مذاکرات کیلئے آمادہ کرچکا ہے۔ طالبان اب بھی غیرمشروط مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ اشرف غنی انتظامیہ دل بڑا کرکے ان کو اقتدار میں شریک کرنے پر مائل ہوتی ہے تو طالبان کے قومی دھارے میں شامل ہونے کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان میں امن افغانوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بھی ضرورت ہے۔ خطے کے ممالک بھی یہی چاہتے ہیں مگر بھارت کیلئے پاکستان‘ اسکی ترقی اور امن قابل برداشت نہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین بھارت کیلئے جنت کی حیثیت رکھتی ہے۔ بھارت کے ناپاک مقاصد میں پاکستان میں مداخلت کرکے اسے جہنم زار بنانا شامل ہے۔
تقسیم ہند سے اب تک طالبان حکومت کے چند سال کے سوا افغان حکمرانوں کے بھارت کے ساتھ مفادات وابستہ رہے ہیں۔ حامد کرزئی کے بعد اشرف غنی نے متعدد بار پاکستان کا دورہ کیا‘ ان دوروں میں پاک افغان یکجہتی و یگانگت پر دلکش اتفاق پائے گئے‘ مفاہمتوں کی یادداشت پر دستخط ہوئے‘ مل بیٹھ کر معاملات طے کرنے کا عزم کیا گیا مگر بھارت کے ایماء پر افغان حکمرانوں نے کہہ مکرنیوں کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا۔
پاکستان اور افغانستان مسلم برادر اور ہمسایہ ملک ہیں‘ ایسے خون کے رشتے پاکستانیوں اور افغانوں کے کسی اور ملک کے ساتھ نہیں۔ انکے مابین ناقابل رشک تسخیر تعلقات ہونے چاہئیں مگر بھارت نے اپنی مکاری‘ عیاری اور فریب کاری سے پاکستان اور افغانستان کو قریب نہیں آنے دیا۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر یلغار میں پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا‘ اسی کے باعث طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا اور کرزئی کے بعد اشرف غنی اقتدار میں آئے۔ افغانستان میں اقتدار میں آنے والوں اور امریکہ کو پاکستان کا ممنون ہونا چاہیے تھا مگر دونوں بھارت پر فریفتہ ہونے لگے۔ امریکہ نے افغانستان میں بھارت کو قدم جمانے کی اجازت دے دی اب اس کا دبائو ہے کہ پاکستان افغانستان میں بھارت کا کردار تسلیم کرے۔ بھارت کا افغانستان میں کردار کیسے قبول کیا جا سکتا ہے جو اپنے نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام اور دہشت گردی سے دوچار کرنے کیلئے افغان سرزمین استعمال کررہا ہے۔
امریکہ کے اس تقاضے پر بھی وہی دوٹوک رویہ اختیار کرنا ہوگا جو افغانستان میں کردار ادا کرنے کی امریکی ڈکٹیشن‘ دھمکیوں اور مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزیوں کا بہانہ بنا کر پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے پر کیا گیا ۔ پاکستان کے دونوں معاملات میں بے لاگ موقف سے متفق ہو کر امریکہ کو دونوں سے رجوع کرنا پڑا۔ افغانستان میں پاکستان کے تعاون علاقائی چین‘ ایران‘ روس جیسے ممالک کی کوششوں سے امن بحال ہوجاتا ہے تو پائیدار امن کیلئے بھارت کا افغانستان سے عمل دخل ختم کرنا ناگزیر ہے۔
افغانستان میںفوری طور پر امن کی مکمل بحالی کا امکان نہیں تاہم ایک مثبت پیش رفت ضرور نظر آتی ہے۔ امن کی مکمل بحالی اور اسکے بعد بھی دہشت گردوں کی سرحد کے آرپار آمدورفت روکنا ضروری ہے۔ اس کیلئے ایک ناقابل عبور دیوار اور باڑ کھڑی کرنے کیلئے پاکستان پرعزم ہے۔ اسکی تنصیب آخری مراحل میں ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاکستان افغان سرحد پرباڑ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک843 میں سے 233 قلعوں کی تعمیر مکمل کی جاچکی ہے۔ افغان بارڈر پر 1200 کلومیٹرکے علاقے میں سے 802 کلومیٹر پرکام مکمل ہوگیا جبکہ دو ہزار 611 کلومیٹر باڑ کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ باڑ کی تکمیل سے سرحد کے اطراف سردست دہشت گردی میں کمی اور امن کی بحالی کے امکانات کی امید کی جا سکتی ہے۔