مجھے آج سقوط ڈھاکہ پر روبا دھونا کرنا تھا۔اور یوم سقوط اے پی ایس پشاور پر بھی سینہ کوبی کرنا تھی مگر میرے سامنے اخبارات کے صفحات پر ایک درجن شہید کشمیریوںکی لاشیں فریاد کناں ہیں۔ میری آنکھوں میں ان کے لئے کوئی آنسو نہیں، اس لئے کہ مجھے ڈر ہے کہ میںنے ان کی ہمدردی میں ایک بھی آنسو بہایا تو کہیں پاکستان کے سابق آرمی چیف اور مارشل لاایڈ منسٹریٹر جنرل پرویزمشرف کا یہ فتوی نہ لگ جائے کہ میں دہشت گرد ہوں۔ جنرل صاحب نے پاکستان کے سو سے زیاد ہ ایڈیٹروں کے سامنے کہا تھا کہ دنیا کشمیر جہاد اور تحریک حریت کو دہشت گردی سمجھتی ہے، اس لئے ان کی حکومت بھی آئندہ کسی کو پاکستان کی سرزمین کسی بیرونی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی۔ حیرت ہے کہ اس سے پہلے یہی جنرل مشرف تھے جنہوںنے امریکی صدر کلنٹن کی ایک نشری تقریر کاترکی بہ ترکی جواب دیا تھا، کلنٹن نے اسلام آباد میں چند گھنٹوں کے قیام کے دوران پاکستانیوںکوبراہ راست مخاطب کرتے ہوئے خبر دار کیا تھا کہ آج کی دنیا میں طاقت سے سرحدیں تبدیل نہیں کی جا سکتیں۔ اس پر جنرل مشرف نے ترنت جوابی تقریر کی اور کہا کہ کشمیری لوگ آزاد کشمیر اور پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لئے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم ہو گا تو وہ اپنے ہاں کے کشمیریوں کو غم و غصے کے اظہار سے نہیں روک سکتے مگر یہی جنرل مشرف جو اپنے آپ کو کمانڈو کہتے تھے، نائن الیون کے بعد امریکی دھمکیوں کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور پھر پاکستان کی ہر حکومت نے جنرل مشرف کے فیصلوں کی پیروی کی اور کشمیر جہادا ور تحریک حریت کو دہشت گردی ہی سمجھا، کشمیریوں کے نام لینے والوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا، حکومتی عتاب کا نشانہ بننے والوں میں حافظ سعید سر فہرست تھے ، ان کی تنظیم لشکر طیبہ اور جماعت الدعوہ کو ادھیڑکر رکھ دیا گیا۔ ن لیگ کے ایک وزیر نے سوال کیا کہ کیا حافظ سعید سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہیں جنہیں ہم نے پال رکھا ہے، لشکر طیبہ کے ساتھ ساتھ حزب المجاہدین بھی حکومتی عتاب کاشکار ہوئی۔ جب تک جنرل مشرف کا یوٹرن سامنے نہیں آیا تھا، پاکستان کے نوجوان کشمیریوں کی مدد کے لئے کنٹرول لائن پار کرتے تھے اور بھارتی فوج سے لڑتے ہوئے شہادتیں دیتے تھے۔ مگر ا سکے بعد جیسے چراغوںمیں روشنی نہ رہی۔ اور کنٹرول لائن پر بھارت کی اتنی سختی نہیں تھی جتنی پاکستان نے کر دی، اس کا فائدہ بھارت نے اٹھایا۔ اب نہتے کشمیری اس کے نشانے پر تھے ، وہ جب چاہتا، انہیں بھون دیتا۔ اس لئے کہ بھارتی فوج کو اب کسی کا ڈر خوف لاحق نہیں۔ کشمیری تو نہتے ہیں۔گزشتہ روز بھارتی آرمی چیف نے کہا ہے کہ پتھر دہشت گردی کا ہتھیار ہے اور پتھر پھینکنے والا دہشت گرد۔ برہان وانی کو شہید کیا گیا ، اس کے ہاتھ میں تو پتھر بھی نہ تھا، بس ایک موبائل فون تھا جس کے ذریعے وہ کشمیری نوجوانوں کو بھارتی غلامی کے خلاف احتجاج کے لیے ابھارتا تھا، برہان وانی تو شہید ہو گیا مگر اس کے خون نے وادی کشمیر کے چپے چپے سے مجاہدین کو جنم دیا ۔بھارتی فوج گھر گھر چھاپے مارتی ہے اور جس کو چاہے خون میں نہلا دیتی ہے۔ ہفتے کے روز بھی اسی طرح کا ایک سرچ آپریشن پلوامہ کے نواحی دیہات میں کیا گیا اور تین کشمیری نوجوانوں کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا، ان شہادتوں پر پورا کشمیر بلبلا اٹھا اور ہر گلی اور ہر سڑک پر کشمیر ی احتجاج کر رہے تھے، بھارتی فوج نے ان مظاہرین پر سیدھا فائر کیا اور دس لاشیں مزید گر ادیں اور تین سوسے زاید کشمیری زخموں سے چور ہسپتالوں میں کراہ رہے ہیں۔ بھارتی فوج کے اس قتل عام پر کشمیر کے دوسابق وزرائے اعلی جوبھارت کے پٹھو رہے، وہ بھی چیخ پڑے ، محبوبہ مفتی نے کہا کہ کوئی بھی ملک اپنے ہی شہریوں کومار کر جنگ نہیں جیت سکتا۔ ہم کب تک ان نوجوانوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ عمر عبداللہ نے سوال پوچھا کہ طاقت کے بے جا استعمال کا کیا جواز ہے۔میر واعظ عمر فاروق نے بھارتی حکو مت کو مشورہ دیا ہے کہ کشمیریوں کو ایک ایک کر کے شہید کرنے کے بجائے ایک ساتھ اکٹھے شہید کر دیں۔
کشمیریوں نے اس قتل عام کے خلاف تین روزہ احتجاج کا اعلان کیا ہے اور یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس احتجاج کے ساتھ بھی بھارتی فوج وہی سلوک کرے گی جواس نے ہفتے کے روز خونیں کھیل کھیلا، پاکستان اور دیگر اسلامی ، جمہوری اور آزاد ممالک اس قتل عام پر کن جذبات کاا ظہار کرتے ہیں، ا سکا پتہ لگنے میںکچھ وقت لگے گا۔ جنرل مشرف کے جانے کے بعد اسلم بیگ آرمی چیف بنے۔ انہوںنے ضرب مومن کے نام سے بہت بڑی فوجی ایکسرسائز کی۔ اس ایکسر سائز کے انچارج جنرل حمید گل تھے۔ انہوںنے سرگودھا میں ایک بریفنگ دی جس میں میرا سوال تھا کہ آپ کی ایکسر سائز سے پتا چلتا ہے کہ آیندہ پاک بھارت جنگ میں پاک فوج بھارتی پنجاب میں ڈیڑھ دو سو میل تک اندر گھس جائے گی مگر آپ کے سامنے کشمیر کی آزادی کا ایک ادھورا ایجنڈہ ہے جس کی تکمیل آپ پر فرض ہے۔ ضرب مومن ایک میدانی جنگ کی فوجی ایکسر سائز ہے جبکہ کشمیر میں لڑنے کے لئے آپ کو پہاڑی جنگ کی ایکسر سائز کرنا چاہئے تھی جو آپ نے نہیں کی۔ تو سوال یہ ہے کہ کشمیر کیسے ملے گا۔اور بھارتی پنجاب میں دو سو میل اندر گھسنے کا نتیجہ آخر یہی ہو گا کہ سیز فائر ہو گاا ور اپنی اپنی سرحد میں واپسی کااصول نافذ ہو جائے گا جیسا کہ پہلی دو جنگوں میں ہوا سوائے اڑتالیس کی کشمیر کی جنگ میں جب ہم آزاد کرائے گئے علاقے پر بدستور قابض رہے، اکہتر میں توہم نے سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن میں بدل دیااور یوں بھارت نے آزاد کشمیر کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا، ان پر وہ بدستور قابض رہا۔ یہ تو رہی اسلم بیگ کے زمانے کی دفاعی حکمت عملی۔ آج کشمیر کی آزادی کے لئے ہماری دفاعی حکمت عملی کیا ہے ، یہ قوم کے سامنے آنی چاہئے۔ کیا ہم نے کشمیریوں کو مرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا ہے یا ہمارے دماغ کے کسی نہاں خانے میں کشمیر کو آزاد کرانے کی خواہش مچل رہی ہے۔ ہمارے میزائل اور ایٹم بم کشمیریوں کے کسی کام آسکتے ہیںیا نہیں۔ مصیبت ہے کہ ہمارا دشمن بے حد عیار ہے ۔ اس نے ہمیں پندرہ برس سے دہشت گردی کی جنگ میں الجھا رکھا ہے۔ دشمن کی حکمت عملی تو واضح ہے کہ وہ ہمیں کشمیر کے بارے میں سوچنے کی مہلت ہی نہ دے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی نے اپنے ایجنڈے کا کھلم کھلا اظہار کر دیا ہے کہ وہ بلوچستان، آزاد کشمیرا ور گلگت بلتستان کے عوام کو بھی ا سی طرح حقوق دلوائے گا جیسا اسنے اکہتر میں مشرقی پاکستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوائے تھے۔ ظاہر ہے ہمیں اپنی بقاا ور سلامتی کی فکر لاحق رہے گی توہم کشمیریوں کے بھلے کے لئے کیسے سوچ سکتے ہیں۔ یہ ہے بھارت کی حکمت عملی مگر ہماری حکمت عملی کیا ہے۔
ہم آج یوم سقوط ڈھاکہ منا رہے ہیں، اے پی ای ایس پشاور پر بھی ہماری آنکھیں اشک بار ہیں ۔کشمیر میں بہنے والے لہو نے ہمیں خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیا ہے۔محبوبہ مفتی نے اپنی حکومت سے پوچھا ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی لاشیں کب تک اٹھاتے رہیں گے۔ میرا اپنی حکومت سے سوال ہے کہ ہم کب تک کشمیریوں کی شہادتوں پر صرف ماتم ہی کرتے رہیں گے،کیا ہمارے پاس کشمیریوں کی آزادی کا کوئی نسخہ ہے یا نہیں۔