سانحہ آرمی پبلک سکو ل کو 4سال بیت گئے لیکن قوم آج بھی شہید ہونے والے معصوم طلباء کے غم میں ڈوبی ہوئی ہے۔گزشتہ روز جب اس سانحہ کو 4سال پورے ہونے پر یاد کیا جا رہا تھا تو سب کچھ آنکھوں کے سامنے تازہ بہ تازہ ہو گیا۔ ہر چہرہ اداس ہے ،ہر آنکھ اشکبار ہے،ہر دل افسردہ ہے،ہر ذہن سوال کر رہاہے کہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں ان بچوں کا کسی فکری اختلاف سے کیا تعلق تھا وہ تو ابھی د نیاوی اونچ نیچ سے بھی آگاہ نہیں تھے ۔ ابھی انہوں نے زندگی میں دیکھا ہی کیا تھا ابھی تو وہ بچپن کی شرارتوں اور لڑکپن کی اٹکھیلیوں میں مگن تھے ۔ اس عمر میں تعلیمی اداروں میں طلباء تعلیم کے سا تھ ساتھ آپس میںجذ باتی وابستگی ر کھتے ہیں ایسی دوستیاں پر وان چڑ ھتی ہیں جو ز ندگی بھر ساتھ ساتھ چلتی ہیں گو یا سکو لوں کے ما حول میں کالجز اور یو نیو ر سیٹیز کے بر عکس پیا ر محبت زیا دہ ہو تا ہے ۔ بچے ایک دوسر ے کے ساتھ زیا دہ مانوس ہوتے ہیں اسی انس ومحبت کا اظہا ر اپنے اسا تذ ہ سے علم کے حصول کے وقت کسی نہ کسی صورت میں کر تے رہتے ہیںاور سکو لوں میں منعقد ہونے والی ہم نصابی سر گر میاں زندگی کے یاد گار لمحات کے انمٹ نقو ش چھوڑ جاتی ہے 16دسمبر 2014کو بھی بچے آر می پبلک سکول کے آڈیٹو ر یم میں منعقد کسی ہم نصابی سر گر می میں شامل تھے اسا تذ ہ سٹیج پر تشر یف فر ما تھے بچے پر وگرام کی سر گر میو ں میں مصروفِ عمل تھے کہ یکا یک چند مسلح دہشت گردوں نے آڈیٹور یم میں موجود بچوں کو یر غمال بنا لیا اور پھر بچوں کو چن چن کر شہید کر نا شروع کر دیا المختصر ذرائع ابلاغ کے مطابق پر نسپل، اساتذ ہ اور طلباء سمیت 142شہا د تیں ہو ئیں اور سکول کی عمارت مکمل طور پر کھنڈر بن گئی۔یہ دہشت گرد کون تھے؟ یہ درندہ صفت لوگ کہاں سے آئے؟ ان میں اتنی سفاکیت کیوں تھی کہ انہوں نے خواتین اور بے گناہ بچوں کا بھی خیال نہ کیا اور انہیں گو لیوں سے چھلنی کر دیا ۔ دراصل یہ ہمارے تیس ،پینتیس سالہ ایسے عمل کا نتیجہ ہیں جس نے پورے عالمِ اسلام کو ہلا کے رکھ دیا ہم نے وقتی طور پر کہیں غلبہ حاصل کرنے کے لئے ایسے مسلح گروہ تیار کئے جو بعد میں ہمارے لئے ہی عذاب بن گئے جنہیںــ’’ طالبان‘‘ کہا جاتا ہے ۔انہیں ہم نے امر یکہ کے سا تھ ملکر روس کے ساتھ لڑایا یہاں تک تو ایک مناسب جدوجہد تھی ۔جس میں پاکستان نے اپنے برادر ملک افغانستان کی آزادی کے لئے نمایاں کر دار ادا کیا لا کھوں مہاجر اٖفغا نیوں کو پناہ دی لیکن روس کا اٖفغا نستان سے نکل جانے کے بعد ہمیں اپنے گھر یعنی ’’پاکستان ‘‘ کی صفائی ضرور کر نا چا ہیے تھی ۔وہ افغان مجاہدین جن میں عرب،ازبک اور افر یقی ممالک کے لوگ شامل تھے انہوں نے پوری دنیا کو فتح کر نے کے خوب د یکھتے ہوئے پا کستان کے قبائلی علا قوں کو اپنی سر گر میوں کا مر کز بنا لیا ۔بد قسمتی سے اس سارے عمل میں اسوقت کے حکمرانوں نے ایک مخصوص مکتبہ فکر کے مدارس کو اس ٹر یننگ کے لئے ’’ فر ی ہینڈ‘‘ دیا ہوا تھا انہوں نے نوجو انو ں کی فر قہ وارونہ ذ ہنی تر بیت کر کے پا کستان کی بنیا دوں کو ہلا کے ر کھ دیا جگہ جگہ پر خود کش حملے، بمب بلاسٹنگ، اور بے گناہ معصوم شہر یوں کو نشانہ بنایا جانے لگا مسجدوں میں نمازیوں کو شہید کیا گیا ۔سینکڑوں سکولوں کی عمارات کوبم سے اڑا دیا گیا ۔ یہ مخصوص مکتبہ فکرحقیقت میں پا کستان کی بنیادکو تسلیم نہیں کر تے اور عامتہ المسلمین کا قتل ِ عام جائز سمجھتے ہیں ۔حکومتیں آتی جاتی رہیں لیکن ان سے صر فِ نظر کیا گیا ۔
آج سپریم کورٹ نے اس حملہ کے محرکات کا کھوج لگانے کے لئے حال ہی میں ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا ہے جو غالباً اگلے ہفتے اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرے گا۔ جس کے بعد ہی اس سانحہ کے متاثرین کے زخموں پر مرہم اور اس اذیت کا مداوا ممکن ہو سکے گا۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہ جائزہ بھی لیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیا کھویا اور کیا پایا، بالخصوص گزشتہ دو دہائیوں کے دوران۔ یقینا پاکستان کی داخلی سکیورٹی کی صورتحال میں رفتہ رفتہ بہتری آ رہی ہے۔2018ء میں جو سکیورٹی ریویو جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق گزشتہ برس کی نسبت ملک میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں 30سے 35فیصد تک کمی آئی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل کمی سکیورٹی اداروں میں حوصلہ افزائی کا باعث بن رہی ہے جن کی رائے ہے کہ اگر یہی صورتحال 3سے 4سال تک برقرار رہتی ہے تو پھر پاکستان دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مکمل فتح کا اعلان کر سکتا ہے۔ انسداد دہشت گردی کا وہ فریم ورک جو اے پی ایس حملے کے بعد تشکیل دیا گیا تھا نتائج کے لئے جتا ہوا ہے مگر ابھی تک اس لیول تک نہیں پہنچ سکا جہاں ہم یہ محسوس کر سکیں کہ کامیابی مستحکم اور فریم ورک میں بہتری آ رہی ہے۔ ستمبر میں نیکٹا کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہوا۔نیکٹا کے سربراہ خالق داد لک نے اجلاس میں تجویز دی کہ نیکٹا کو رول بیک کر دیا جائے اور تمام انٹیلی جنس اداروں کے مشترکہ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے منصوبے کو بھی منسوخ کر دیا جائے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ جائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ ہی کو نیکٹا کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ مگر یہ ڈائریکٹوریٹ تاحال فعال نہ ہو سکا نیشنل کوآرڈینیٹر نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ اس ادارے کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے کیونکہ ملکی خفیہ اداروں نے کبھی بھی اس تصور کی حمایت نہیں کہ تمام خفیہ اداروں کا مشترکہ ڈائریکٹوریٹ بنایا جائے کہ ان کا خیال ہے کہ جائنٹ ڈائریکٹوریٹ خفیہ اداروں کو سول انتظامیہ کے ماتحت لانے کے لئے بنایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے نیکٹا کے کردار اور افعال کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی بنا دی ہے تاہم ابھی تک کمیٹی کے مستقبل کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ نیشنل ایکشن پلان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خلاف مشترکہ حکمت عملی تھی لیکن اس پر بھی پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ گزشتہ چار برسوں میں کوئی ایک بھی ادارہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا معاملہ ہمیشہ نیکٹا، وزارت داخلہ، نیشنل سکیورٹی کمیٹی اور مختلف ایپکس کمیٹیوں کے درمیان متنازعہ بنا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اداروں کے تامل کی پالیسی کے بجائے جنگ میں کامیابی کا انحصار قومی موقف پر ڈٹ جانے پر ہے۔ تمام اداروں کو اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے حصے کا کام چابک دستی اور اخلاص سے کرنا ہو گا۔ملک میں جو اب تک امن کی فضا قائم ہو سکی ہے اور جو کامیابیاں ملی ہیں پاک فوج، پیرا ملٹری دستوں،پولیس، سیاسی رہنمائوں، میڈیا ،سول سوسائٹی یہاں تک کہ مذہبی حلقوں کی قربانیوں کا ہی ثمر ہیں۔ اگر سکیورٹی ادارے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لڑے ہیں تو پارلیمنٹ اور سول اداروں یہاں تک کہ سوسائٹی نے اس جنگ کی اونر شپ قبول کی ہے۔ سول سوسائٹی اور میڈیا نے دہشت گردی کے خلاف بیانیہ کی تشکیل میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ یہ تمام سٹیک ہولڈر کی مشترکہ کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان جس کے قیام کو اس ماہ11 برس ہو چکے ہیں اس کا بیانیہ مسترد کیا جا چکا ہے اور آج تحریک طالبان کو ملک میں سپورٹس بیس بنانے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ ہم نے ان برسوں میں کیا کھویا؟ دہشت گردی کے خوف کے سائے میں ہماری ایک نسل جوان ہو چکی ہے اور انتہا پسندی مختلف حوالوں سے ہمارے انفرادی اور ادارہ جاتی رویوں میں سرایت کر چکی ہے۔
پس ہمیں ایسے سانحات سبق دیتے ہیں کہ ہمیں متحد ہونا ہے’’سانحہ اے پی ایس‘‘ سننے یا دیکھنے میں آتا ہے تو دل اسی طرح کانپ جاتا ہے اور روح اسی طرح لرز جاتی ہے، بہت سے غازی ایسے ہیں جنہوں نے اس سانحہ میں اپنے بھائیوں کو اپنے سامنے اس ظلم کا شکار ہوتے دیکھا۔ وہی ہمارے ہیرو ہیں کیوں کہ اس سانحے نے پاکستان کی شکل ہی بدل کر رکھ دی تھی لیکن یہ سانحہ ہر ایک کو یکجا کر گیا۔ جہاں ہر آنکھ اشک بار ہوئی، وہیں ہر بچہ اور ہر بڑا اپنے اندر ایک عزم لیے بیٹھا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہے اور علم کی شمع کو جلائے رکھنا ہے۔پاک فوج ہر دم اس ملک کی حفاظت کے لیے کوشا ں ہے اور انشاء اللہ یہی جذبہ رہا تو ہم جنگ جیت جائیں گے!!!