محمد علی کلے اور باجوہ ڈاکٹرائن

باکسنگ کی دنیا میں عظیم مسلمان باکسر محمد علی کلے نے بڑا نام پایا۔ رِنگ میں حریف کو ہرانے کا ان کا اپنا ایک انوکھا اور منفرد طریقہ کار تھا۔ اسکے باکسنگ کے مقابلے اس دور میں پوری دنیا میں براہ راست نشر ہوتے تھے۔ اسلامی دنیا میں محمد علی کلے کے مسلمان ہونے کے باعث بہت زیادہ جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ باکسنگ سٹیڈیم تو تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا۔ ٹکٹ مہنگا ترین ہونے کے باوجودٹکٹ بکنگ کھلنے کے چند گھنٹے میں فروخت ہو جاتے۔ باکسنگ کے ماہرین کے ساتھ ساتھ اس کھیل سے دلچسپی رکھنے والوں کو پہلے رائونڈ کے آغاز ہی سے حریفین کی طاقت کا اندازہ ہو جاتا۔ محمد علی Power Mountain تھے۔ اس کا حریف جتنا بھی کمزور ہوتا محمد علی مقابلہ آخری رائونڈ تک لے جاتا۔ وہ پہلے دوسرے رائونڈ میں مدمقابل کر ناک آئوٹ کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود بھی ناک آئوٹ نہیں کرتا تھا۔ ہوسکتا ہے پنجابی کے محاورے کیمطابق تماشائیوں کے پیسے پورے کرنے کی سوچ کے باعث ایسا کرتا ہو۔ بہرحال جو بھی اسکے پیش نظر ہو وہ اپنے حریف کو تھکا تھکا کر شکست سے دوچار کرتا تھا۔ آج بہت سے حوالوں سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید کی ڈاکٹرائن بھی ایسی ہی نظر آتی ہے۔ جنرل باجوہ کو تین سال کی توسیع دی گئی۔ اسکی وجوہات کو حکومت کی طرف سے تفصیل کے ساتھ کورٹ کے روبرو بیان کرنے کے ساتھ عوام سے بھی شیئر کی گئی ہیں۔ ایک تو حالات، جنگی قسم کے ہیں اور مغربی بارڈر تو سلگتا ہی رہتا ہے۔ بھار ت کے تقسیم کشمیر کے اقدام نے جلتی پر تیل کا کام 5اگست کے بعد پاکستان بھارت جنگ کے سائے کبھی گہرے اور کبھی ہلکے ہوتے رہے ۔کشمیر ایشو بدستور سلگ رہا ہے اور یہ چنگاری بھارت کی رعونت اور فطرت کروفر کے باعث کسی وقت بھی بھانبڑ بن سکتی ہے۔ بھارت اگر اپنی اوقات میں ہے اور آپے سے باہر نہیں ہو رہا تو اسکی بڑی وجہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بہتر عسکری حکمت عملی ،پیشہ ورانہ مہارت اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی ڈاکٹرائن ہے، ان کو اس لیے بھی توسیع دی گئی۔ اور پھر وہ معیشت کیلئے بھی بہترین کردار ادا کرتے رہے ہیں جس کا حکومت برملا اعتراف کرتی ہے۔ تجارتی اور دفاعی معاہدوں کیلئے وہ چین ،سعودی عرب اور امریکہ جیسے اہم ممالک کے دورے بھی وزیراعظم کیساتھ کر چکے ہیں۔ آج پاکستان کی طرف سے G-7بلاک کی تشکیل ہو رہی ہے۔ اس گروپ میں پاکستان، ایران، ترکی، قطر، انڈونیشیا، ملائیشیا اور امارات کو شامل کرنے کی کاوش جاری ہے۔ گروپ میں ایران کی شرکت پر سعودی عرب اور امارات کو تحفظات ہو سکتے ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے وزیراعظم عمران خان سعودی عرب اور جنرل باجوہ امارات جا کر جی سیون کی تشکیل کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر جنرل باجوہ نے کرپشن اور دہشتگردی کا گٹھ جوڑ توڑنے کیلئے جو کردار ادا کیا وہ پاکستان کی تاریخ میں سنہری باب کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ آج پاکستان اگر بلیک لسٹ میں جانے سے محفوظ رہا ہے اسکی وجہ دہشتگردوں کیخلاف ناقابل فراموش ایکشن ہیں۔ ان میں ایسی شدت پسند تنظیمیں اور شخصیات بھی شامل ہیں جو’’ پرائیویٹ جہاد‘‘ کے ذریعے لال قلعہ دہلی پر پرچم لہرانے کے غیر منطقی دعوے کرتی ہیں اور پاکستان اگر گرے لسٹ سے نہیں نکل سکا تو اس کی وجہ میاں نوازشریف اور بلاول کی فوج اور حکومت سے مرضی کا انصاف نہ ملنے کی رنجش کے باعث ملک دشمنی کی سرحدوں کو چھوتی وہ بیان بازی ہے جسے بھارت ایف اے ٹی ایف جیسے فورموں پر پیش کرتا ہے۔
جنرل باجوہ آئین اور قانون کی پاسداری کرنے والے فوجی ہیں۔ وہ آئین اور قانون کے تحت حکومت کے ساتھ چل رہے ہیں۔ کچھ پارٹیوں کو ان کا یہ رویہ کھلتا ہے ۔وہ حکومت اور فوج کے مابین دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں جس میں ناکامی پر ان کیخلاف ہی محاذ کھول لیا مگر وہ کسی قسم کا کمپرومائز کرنے پر کسی صورت تیار نہیں۔ اپوزیشن اگر پارسا ہو تو اس کو کوئی غیر اصولی اور غیر منطقی مطالبہ ہی نہیں کرنا چاہیے اور پھر مطالبات کا مقدمات کے خاتمے ، حکومت کو گھر بھیجنے کے ہیں۔ اور پھر خود جنرل باجوہ کیخلاف ہی محاذ کھول لیا گیا۔ اور وہ خائف نہیں ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن اسلام آباد کو تسخیر کرنے نکلے تھے ۔ گردوغبار اٹھایا گیا طوفان برپا کیا گیا اور کیا نکلا؟ دوسری طرف شریف خاندان فوج کیخلاف سرگرم رہا۔ ان کو بھی مقتدر حلقے نے تھکا دیا۔ زرداری صاحب بھی بڑا ’’تنگڑ‘‘ رہے تھے۔ جھکیں گے نہ بکیں گے کے دعوے کرنیوالے شاید بکے تو نہ ہوں مگر جھک ضرور گئے ہیں۔ جھکتے جھکتے ایک لندن دوسرا کراچی چلا گیا۔ یہ سب باجوہ ڈاکٹرائن کا کمال ہے اورشاید محمد علی کلے کی تھکا تھکا کر مارنے کی حکمت عملی سے ماخوذ ہے۔
قارئین گذشتہ روز ٹورنٹو چودھری سجاد گجر کی دعوت پر تحریک انصاف حلقہ70لالہ موسی سے رکن قومی اسمبلی سید فیض الحسن کے اعزاز میں عشائیہ کا انتظام تھا جس میں پاکستانیوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ راقم کے علاوہ مقامی ممبر پارلیمنٹ محترمہ سلمیٰ زیداور ممبر پارلیمنٹ رالف ایلیفنٹ اور سید فیض الحسن صاحب نے خطاب میں وزیراعظم پاکستان عمران خان اور کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈوکے درمیان رابطوںکو خوش آئند قرار دیا۔

ای پیپر دی نیشن