لہو ایک جوان رعنا کا

Dec 17, 2019

فاروق عادل

اسلام آباد میں بدقسمتی نے پھر ہمارے قدم چومے ہیں اور ایک جوان رعنا کا لاشہ خاک اور خون میں لتھڑ گیا ہے۔ اسکے ساتھ ہی یہ بحث ایک بار زور پکڑتی دکھائی دیتی ہے کہ طلبہ یونین ایک عفریت ہے، بھیانک خواب ہے، اسے اگر تعبیر نہ ہی ملے تو اس میں خیر ہے۔کیا لوگ بھول چکے ہیں کہ لوگ جو بھی کہیں کالجوں اور یونیورسٹیوںمیں بہار دو بار آتی ۔ایک اس وقت جب انتخابات ہوا کرتے اور دوسرے نئے تعلیمی سال آغاز پر داخلوں کے موقع پر ۔ان دونوں مواقع کی یادیں دلوں میں تتلیاں بن کر اڑتی ہیں۔ داخلوں کے موقع پر نئے طلبہ کی اپنی تعلیمی پیش رفت میں سرشاری، میرٹ کے باعث داخلہ ملنے یا نہ ملنے کی فکر مندی اور اپنی خوبصورتی اور وجاہت کے اظہار جیسی تینوںکیفیات ایک ساتھ دیکھنے کو ملتیں۔ ایسے مواقع پر نئے طلبہ کی ذہاہت یا بدحواسی کے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے جن سے لطف اٹھانے کیلئے سینئر طلبہ ان مقامات پر ہجوم کیا کرتے جہاں نئے طلبہ جمع ہوتے۔ایک لطیفہ یاد آتا ہے،ایک طالبہ نے معذور طلبہ کیلئے مخصوص نشستوں پر داخلے کیلئے درخواست جمع کرائی تو کسی شریر سینئر طالب علم نے پوچھا،بی بی! آپکی معذوری کیا ہے؟ اس نے ترنت جواب دیا، میرے بال گرتے ہیں۔خیر، یہ تذکرہ چلا تو طویل ہوتا چلا جائیگا،اس وقت طلبہ یونین کے انتخاب کی بات کرنی ہے جس کی اجازت دیکر سندھ حکومت نے تاریخ رقم کردی ہے۔
طلبہ یونین کے انتخاب کے موقع پر داخلوں سے بھی بڑھ کر گہما گہمی ہوا کرتی۔ہمارے ایک استاد پروفیسر ریاض احمد شاد(اللہ ان کی قبرکو نور سے بھر دے)اپنی ہر دل عزیزی کے باوصف امور طلبہ کے مشیر اور علم و ادب سے وابستگی کے باعث نیوز لیٹر کے مدیر ہوا کرتے تھے۔ نیوز لیٹر کا جب انتخاب ایڈیشن شائع ہوتا تو اس کی سرخیوں اور تصاویر کے کیپشنوں میں ہلا گلا، جشن اور رونقیں جیسے الفاظ کی بھرمار ہوتی۔سچ یہ ہے کہ وہ جو کچھ لکھا کرتے، عین وہی کچھ تعلیمی ادارے کی چار دیواری،راہداریوں اور باغیچوں میں دیکھنے کو ملتا۔نئے نئے نعرے تخلیق ہوتے، نعروں کی طرزیں بنتیں، پوسٹروں کے ڈیزائن اور مندجات میں جدت پیدا کی جاتی اور سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کام طلبہ اپنے ہاتھ سے کیا کرتے۔یوں نشر و اشاعت، لکھنا لکھانا اور صحافیوں سے ربط ضبط کا سلیقہ ان میں پیدا ہوجاتا۔انتخابی سرگرمیوں کا یہ ایک پہلو ہے جس کی اہمیت کا اندازہ اس وقت بھی ہوتا لیکن عملی زندگی میں تو یہ مہارت سچی بات یہ ہے کہ اثاثہ بن جاتی۔
اس سرگرمی کا دوسر اور بہت اہم پہلو انتخابی مہم ہوا کرتی جسے کنویسنگ(Canvassing) کہا جاتا۔یہ پہلو اس اعتبار سے زیادہ اہم اس لیے تھا کہ یہی وہ اہم سرگرمی ہوتی جس کے ذریعے طلبہ میں بات کرنے، مؤثر طریقے سے اپنا مؤقف پیش کرنے اور دوسروں کو قائل کرنے کی مشق ہوتی۔آج بھی یاد کرکے لطف آتا ہے کہ دوست احباب اس شعبے میں اپنی صلاحیتوں میں اضافے کیلئے خوب محنت کیا کرتے اور ایسے ایسے نکتے نکال کر لایا کرتے کہ طبیعت نہال ہوجاتی ۔کنویسنگ کا ذکر چھڑا ہے تو دل میں دو دوستوں کی مہکتی ہوئی یاد کی خوشبو پھیل گئی۔ ہمارے زمانے کے ایک لیڈر اشتیاق احمد گوندل ہواکرتے تھے خیر سے اب پروفیسر ہی نہیں ڈاکٹر بھی ہیں اور دیس پردیس علم کے موتی رولتے ہیں۔اشتیاق بلا کے مقرر تھے۔ان کا خطاب سننے کیلئے انکے ہم خیال ہی نہیں بلکہ مخالفین بھی جمع ہوجاتے تو انکے نکالے ہوئے نکتوں کی دل کھول کر داد دیا کرتے۔دوسرے دوست جلیل طارق تھے۔جلیل طارق لڑکپن میں بھی اپنی عبادت گزاری ،شرافت اور نفاست کیلئے معروف تھے۔ممکن ہے کہ اپنی ان ہی خوبیوں کی وجہ سے کچھ شرمیلے رہ گئے ہوں اور تقریر انکی پہلی سرگرمی نہ بن پائی ہو۔یہ پہلو اپنی جگہ لیکن دوستوں کے حلقے نے انھیں اپنا امیدوار بنا لیا تو بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا لیکن پریشانی کی بات یہ کی تھی کہ جلیل طارق اگر تقریر نہ کر پائے تو کیا بنے گا، یہی خوف تھا جس کی وجہ سے انکے ہر دوست نے ان پر مشوروں کی چادر تان دی اور وہ اسکے نیچے دب کر رہ گئے اور شاید اسی لیے غائب بھی ہوگئے۔ رات بھر انکی تلاش جاری رہی ، صبح البتہ وہ خود منظر پر آگئے اور انھوں نے پہلی اپنی تقریر ہی اس شان سے کی کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ ان سے پوچھا گیا کہ یار کہاں غائب ہوگئے تھے تو انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں کی عزت رکھنے۔ گھر جاکر تنہائی میں بیٹھا اور سوچا کہ مرد میدان بننا ہے یا راہ فرار اختیار کرنی ہے۔ غیرت نے دوسرا راستہ بند کردیا،اب میں آپکے سامنے کھڑا ہوں اور تم میری تقریر کی داد بھی دے رہے ہو۔
طلبہ یونین کا اس سے بھی بڑا فائدہ یہ تھا کہ ووٹ دینے والے طلبہ میں قیادت کے انتخاب کا شعور پیدا ہوتا اور انکی منتخب قیادت میں وقت فیصلہ۔ آج وقت کے اعتبار سے دہائیوں کے فاصلے پر کھڑے ہوکر محسوس ہوتا ہے کہ تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کے ساتھ جن معاملات پر اختلافات اور مذاکرات ہوتے ، وہ کوئی اتنے اہم مسائل تو ہرگز نہیں ہوا کرتے تھے لیکن اپنے وقت کی مخصوص صورتحال میں اتنے کم اہم بھی نہیں ہوا کرتے تھے ۔تعلیمی ادارے کی انتظامیہ ان معاملات کو اپنی آسانی کیلئے اپنے انتظامی نکتۂ نظر سے دیکھا کرتی یا اسکے پیش نظر یہ خیا ل ہوتا کہ اگر ایک بار کوئی معمولی سی ’’بدعت‘‘ بھی پڑ گئی تو وہ کہیں آگے چل کر بڑی مصیبت میں تبدیل نہ ہوجائے۔بس، یہی چھوٹے چھوٹے جھگڑے نوجوانوں میں معاملہ فہمی کی اہلیت پیدا کرتے، وقت پر بات کرنے اور اپنا مؤقف پیش کرنے کا سلیقہ سکھاتے ، یہ سب چیزیں مل ملا کر عملی زندگی کا اثاثہ بن جاتیں۔
اب اس معاملے کی آخری ،سب سے اہم اور نازک بات۔ان سطور کے لکھنے والے میں اس انکار کی ہمت تو بالکل نہیں ہے کہ طلبہ یونین کے انتخابات اور اس سرگرمی کے مختلف مراحل پر اختلافات کی ایسی نوعیت پیدا نہیں ہوتی تھی جو بعد میں کسی خونریز فساد میں نہ بدلے۔ ایسا ہواا ور بہت ہوا جس میں خود ہمارے ساتھی اور دوست بھی متاثر ہوئے لیکن یہ اسی وقت ہوا جب جمہوری اصول پر شدت کا غلبہ ہوا اور طلبہ ووٹ کی طاقت پر اعتماد کرنے کے بجائے اس پر عدم اعتماد کیا اور زور بازو سے قیادت کی کلاہ اپنے سر پر سجانے کی خواہش کی۔اسکے نتیجے میں خود طلبہ کو اپنے ساتھیوں کی جدائی کا زخم سہنا پڑا اور اور بہت سے بوڑھے والدین کو اپنے نحیف کاندھوں پر اپنی جوان اولاد کے جنازے اٹھانے پڑے۔ یہ جو بعض احباب لاہور، بہاول پور اور کراچی کے تعلیمی اداروں میں ہونیوالی خونریزی کی مثالیں دیتے ہیں، اس کا سبب ایسے ہی واقعات رہے ہیں جب خود طلبہ نے اصول توڑا نیز انھیں کہیں نہ کہیں سے سرپرستی میسر آئی لیکن اسی دیس میں سیکڑوں شہروں کے ہزاروں تعلیمی اداروں میں نہایت امن و سلامتی کے ساتھ طلبہ یونینیں منتخب ہوتی آئی ہیں اور ان منتخب اداروں سے تربیت پاکر نکلنے والے نوجوان معاشرے میں آج بھی اپنے حصے کا مثبت کردار ادا کررہے ہیں۔
یہ خونریزی جس کا خوف ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے، اس پر نہایت آسانی کے ساتھ قابو پایا جاسکتا ہے ، اگر طلبہ کے ان منتخب اداروں میں واقعی جمہوریت فروغ پائے اورمسائل بات چیت سے حل ہونے لگیں۔یہ دونوں کام سخت نگرانی اور قانون کے حقیقی نفاذ سے عین ممکن ہیں۔ایسا اگر نہیں ہوگا تواسلام آباد کی طرح کوئی شبہ نہیں پانی پینے پلانے اور گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑے ہوتے رہیں گے۔مجھے ایک زمانے میں کسی مغربی یونیورسٹی سے امتیاز کے ساتھ کامیابی حاصل کرنیوالے نوجوان سے انٹر ویو کرنے کا موقع ملا تھا۔میں نے اس سے اسی بارے میں سوال کیا تو اس نے بتایا کہ کیمپس فورس ایسے مسا ئل سے نمٹنا خوب جانتی ہے۔ مغربی تعلیمی اداروں میں یہ فورس اتنی مؤثر ہوتی ہے کہ اگر کچھ لوگوں کے درمیان کوئی تنازع پیدا ہوجاتا ہے اور ہاتھا پائی کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے تو ہر فریق کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا مخالف ہی ہاتھ اٹھائے اور پہل کرے۔ممکن ہے کہ یہ تجربہ پاکستان کے حالات سے مختلف ہو لیکن کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ بے لچک نظم و ضبط اور مناسب قوانین کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔پاکستان سے اگر دہشت گردی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے تو اس کے مقابلے میں یہ مسئلہ تو بہت معمولی ہے،پس، طلبہ یونین کی بحالی کیخلاف تشدد اور خونریزی کا بہانہ ایک کمزور دلیل ہے۔

مزیدخبریں