نوم چومسکی ٹھیک ہی کہتا ہے

 نوم چومسکی عصر حاضر کے ایک مشہور فلاسفر، مورخ، نقاد اور سائنس دان مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے چند دن پہلے ایک لیکچر میں پاکستان کی سائنسی ترقی کے سفرکو غیر تسلی بخش قرار دیا بقول انکے ماضی میں پاکستان میںسائنس کے میدان میں نوبل یافتگان کا نام آتا تھا لیکن اب پاکستان کی کارکردگی وہ نہیں رہی اور موجودہ ملکی نظام تعلیم میں سائنس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے یہ ایک تکلیف دہ صورتحال کی طرف اشارہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے جن میں ٹیکنیکل پیشہ ورانہ ،سائنسی اور ریسرچ شامل ہیں ،رو بزوال ہیں کہ ان میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔در اصل پاکستان کو در پیش چیلنجز میں تعلیم کے مسئلہ کو، آبادی میںاضافے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جا سکتا ہے اگر پاکستان کو دنیا کے نقشے پر کوئی کامیابی حاصل کرنی ہے، تو اس کو جوان اور آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ضرب کھاتی ہوئی بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے محفوظ اور عمدہ روزگار کا بندوبست کرنا ہو گا۔اس کے لئے پر امن ماحول، کاروبارکے لئے تحفظ، اور سسٹم کی اشد ضرورت ہے ۔اس کے لئے تعلیم یافتہ طبقے کا معقول حد تک کثرت میں ہونا ہی معیشت کو ضروری ٹیکنیکل ، ہنر مند افرادی قوت فراہم کرسکتا ہے تا کہ اس ملک کو دور اندیش ،پڑھی لکھی قیادت مہیا ہو سکے ۔اعلی سائنسی تعلیم وریسرچ،کے ادارے جو بقول نوم چوسکی، توہماتی خیالات ڈر ،وسوسوں،کم علمی کی وجہ سے ان دیکھے خوف، کا توڑ کرسکیںاور پاکستان کی واحد ترجیح ، معاشی اور سٹریٹیجک ترقی حاصل ہو سکے، نظام تعلیم میں فوری نیک نیتی سے انقلابی اقدام کی ضرورت ہے، اعلی فنی تعلیم کا حصول معاشی طور پر معاشرے میں اطمینان، سکون، سوشل زندگی میں تبدیلی اور معاشرے کو ایک نئے روپ اور نئی سوچ میں ڈھالنے کا کام کرتا ہے اور نئی توقعات اور امیدیں لے کر آتا ہے۔ یہ ریاست کی ناکامی ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں، جس میں اکثر طبقات تعلیم سے محروم رہ جائیں یا جدید معیشتوں اور معاشروں کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہوں، کا سدباب نہ کرسکیں اور موجودہ اور سابقہ دہائیوں کے جدید ، ترقی یافتہ معاشروںمیں پڑھے لکھے طبقوں کے کر دار کا ایک ناقدانہ جائزہ ، اور ان کو اپنے ملک کی اقدار و معروضی حالات میں بغیر خوف ،حیل وحجت کے ڈھالنے کی کوشش کریں۔ فنی ، سائنسی تعلیم کے باعث آج یورپ اور ترقی یافتہ ممالک اربوں ڈالرز اعلی تعلیم کی تربیت، حربی، طبی، ٹرا نسپورٹ سسٹم کے طفیل سالانہ کی بنیاد پر کما رہے ہیںنہ صرف اپنے عوام بلکہ تمام دنیا کو کئی طریقوں سے فائدہ اور کئی وسیلوں سے نقصان بھی پہنچا رہے ہیںاور صرف بہترین ٹیکنالوجی کے طفیل دنیا میں ہر حکومت کو کنٹرول اور ہر قسم کی زیرزمین معدنیات بشمول تیل اور دوسری معدنیات اور چاند سمیت خلا کو مسخر ، کرونا کی ویکسین تیار،نٹارکٹیکا میں انیس سو چھیاسٹھ میں ارک لینڈبلیاڈ کے پہلے سفرکے بعد زمین کی تہہ کو جانچنے کی ریسرچ اور تحقیقاتی کوششیں ،سافٹ ویئر کمپیوٹر اور موبائل ٹیکنالوجی ، روبوٹ ٹیکنالوجی،ہیڈ ٹرانسپلانٹ وغیرہ تحقیقی،تخلیقی سوچ اور فنی تعلیم کیلئے ضروری معیار طلبا اور اساتذہ کیلئے قائم کرنے کے بعد ہی حاصل کر سکے ہیں۔اس کیلئے ہمارے ملک عزیز میں مضبوط سیاسی ارادے اور پختہ فیصلے کی ضرورت ہے ، جو ابھی تک پاکستان کی قیادت نہ کر سکی۔ حتیٰ کہ عام سکول کی تعلیم میں بھی ہمارے بقول وزیراعظم عمران حان کے دو کروڑ سے زیادہ بچے کسی سکول نہیں جاتے کیا یہ المیہ نہیں ۔پاکستان کی آج بھی آدھی آبادی غیر تعلیم یافتہ ہے لوگوں کو لمبے فاصلے طے کر کے سکولوں میں جانا پڑتا ہے ، اور راستے بھی اکثر دشوار ہیں، جبکہ بجلی، صاف پانی، بیت الخلا بھی کی سہولت میسر نہیں۔دو ہزار اٹھ کے سروے میں ، ایک لاکھ ساٹھ ہزار پبلک سکولوں میں ساٹھ فیصد کے پاس بجلی کی سہولت نہیں،چالیس فیصد سے زیادہ لیٹرین کے بغیر،چوالیس فیصد،بغیر چار دیواری کے ہیں۔ گورنمنٹ سکول میں سڑسٹھ فیصد، پرایئویٹ میں انتیس فیصداور مدرسوں میں چار فیصد طلباکی تعداد ہے۔ مدرسوں میں بہت غریب اور گورنمنٹ اداروں اور عام پرائیویٹ سکولوں میں بھی صرف مڈل یا اس سے نیچے کی کلاس کے لوگ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ایلیٹ کلاس  بہتر کوالٹی تعلیم ہی حاصل کرتی ہے جو پانچ فیصد سے کم ہے۔اعلی تعلیم کے حصول میں یہ معاشی اورتین طبقاتی طریقہ ہائے تعلیمی نظام ظلم ہے اور ریاست کی ناکامی ہے بنیادی حقوق کی نفی ہے اور ہم اس تقسیم کو ستر سال سے برداشت کر رہے ہیں۔ ہم سائنسی تعلیم کے حصول میں کیسے آگے جا سکتے ہیں جبکہ روز آبادی میں اضافہ اس تقسیم میں اور بڑھا وا دے رہا ہے ۔تعلیم یافتہ غیرہنر مند افراد کی کثرت مایوسی، بیگانگی، خلفشار اور منفی اثرات پیدا کر رہی ہے۔  ٹیوٹا جیسے ووکیشنل ادارے شہروں کے مقابلے میں دیہاتوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔  صنعتی ڈیمانڈ کیمطابق تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اہمیت کھو رہے ہیں، جب کے دوسرے ممالک میںیہی ادارے کامیابی سے چل رہے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن