بھارت میں کار پوریٹ سیکٹر کے سرمایہ اور مذہبی جنونیت کو ہوا دے کر را شٹریہ سیوک سنگھ کے سیاسی ونگ بی جی پی کو اقتدار میں لایا گیا۔ مذہبی جنونیت نے بھارت میں جو گل کھلائے وہ کوئی سربستہ راز نہیں ہے اس کا نشانہ زیادہ تر مسلمان اور انکے بعد سکھ ، عیسائی اور نچلی ذات کے ہندو بنیے ہیں۔ اصل کھیل جس نے بھارت کو قصر مذلت میں پہنچا دیا ہے کارپوریٹ سیکٹر نے کھیلا وزیر اعظم نریندر مودی جس کا اہم کردار ہے جو کارپوریٹ سیکٹر کی جنبش ابرو پر اسکے مفاد کی ر اہ ہموار کرنے والی پالیسیاں عوام پر مسلط کرنے پر مجبور ہے۔ جس سے صنعت کاروں اور بڑے تاجروں کی تجوریاں بھر رہی ہیں اور غریب عوام کی جیبیں خالی ہو رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں انکی معاشی حالت ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب امریکی حکومت کے ذریعہ اسرائیل اور امریکہ میں یہودی مالکان کی اسلحہ ساز فیکٹریوں نے مودی سرکار کی گردن دبوچ رکھی ہے۔ جس کے نتیجے میں روٹی سمیت بنیادی ضرورتیں پوری ہونے کی بجائے اربوں ڈالر کے اسلحہ کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔
کارپوریٹ سیکٹر نے صنعت و تجار ت کو اپنے لئے زیادہ سے زیادہ منافع بخش بنانے کی پالیسیاں بنوانے کے بعد منافع کیلئے دوسرے بڑے ذریعہ زراعت پر ہاتھ ڈالا ہے۔ ا سکے ایما پر مودی سر کار نے نئے زرعی قوانین بنا کر اس مقصد کا حصول یقینی بنا دیا ہے۔ جس سے لازمی طور پر کسانوں پر زد پڑی ہے۔ اس حکومتی کسان دشمن اقدام کیخلاف کسانوں کا اضطراب و احتجاج منطقی ردعمل ہے۔ جس کا اظہار ایک ماہ سے زائد ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی صورت میں ہو رہا ہے جس میں آئے روز وسعت و شدت آتی جا رہی ہے اور اب جس کا دائرہ ملکی سرحد پار کر کے امریکہ، کینیڈا ، برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں تک پھیل گیا ہے۔ بھارت میں پنجاب اور ہریانہ صوبوں کے ہر شہر، قصبہ اور گاؤں میں مقامی سطح پر احتجاجی مظاہرے روز کا معمول اختیار کر کر گئے ہیں جبکہ دارالحکومت دہلی احتجاج کا بڑا مرکز بن گیا ہے۔ ہزاروں کسانوں نے احتجاجی دھرنا دے رکھا ہے۔ دہلی کے تمام داخلی راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔ دارالحکومت کی شہری زندگی مفلوج ہے اور شہر میں ایک نئے شاہین باغ کا منظر ہے۔ یاد رہے کہ مودی سرکار کے مظالم کی اذیت اور خوف کے پھیلے سایوں کے باوجود بھارت کے مسلمانوں نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے وجود کیلئے خطر ہ بننے والے سیاہ قوانین سی اے اے اور این آر سی کیخلاف دہلی کے شاہین باغ میں زبردست تاریخی دھرنا دیکر اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کر کے مودی سرکار کو باور کرادیا تھا کہ ’باطل سے دبنے والے اے آسمان نہیں ہم‘ اگر چہ کور ونا وبا کے باعث یہ احتجاج حصول مقصد کے بغیر ہی ختم کرنا پڑ گیا تھا مگر اس کے نتیجے میں مسلمانوں کیخلاف متذکرہ متعصبانہ قوانین پر عمل درآمد بھی رک گیا ہے۔ مسلمانوں کے اس احتجاج میں سکھوں نے بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اب مسلمان سکھ کسانوں کے احتجاج میں بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ مسلمانوں نے مساجد میں قائم باورچی خانے ان کیلئے کھول دیئے ہیں۔ شاہین باغ میں خواتین کے عز م و حوصلے میں پختگی کا باعث بننے والی 90 سالہ بلقیس دادی بھی سکھ کسانوں کے مظاہرہ میں اظہار یکجہتی کیلئے پہنچ گئیں جنہیں دہلی پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔
ادھر بھارت کی 24 سے زائد سیاسی جماعتوں نے کسان تحریک کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے جن میں کانگریس آئی، راشٹریہ جنتا دل، سماج وادی پا رٹی، دراوڑ امنیتر شگھم، این سی پی، سی پی آئی،سوشلسٹ پارٹی اور دیگر جماعتیں شامل ہیں ۔ ان جماعتوں نے 8 دسمبر کو بھارت بند کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ کسانوں کی نمائندہ جماعت کھل بھارتیہ کسان سنگھرش کی سمونیہ سیمی نے کہا ہے کہ نئے زر عی قوانین کے مکمل خاتمہ تک احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ حکومت کی جانب سے زر اعت پر کارپوریٹ کے تسلط کے فیصلے سے کسان مکمل طور پر تباہ ہو جائینگے۔ جس کے نتیجے میں اجناس کی منڈیوں کے ٹھیکے کارپوریٹ سیکٹر کو دے دیئے جائیں گے جو من مانے ریٹ مقرر کر کے کسان کی محنت پر ڈاکہ ڈالیں گے اور کسان کی حیثیت عملاً صنعتی مزدور کی طرح زرعی مزدور کی ہو جائیگی۔
بھارت میں ز رعی خواتین کے خلاف جاری کسانوں کی احتجاجی تحریک کی 14 دسمبر کو غیر معینہ مدت کیلئے ہڑتال نے مزید شدت اور نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند گجریوال نے بھی ایک روزہ بھوک ہڑتال کر کے کسانوں کی حمایت کا یقین دلایا جبکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ بھی دھرنا میں شریک ہوگئے ۔ کانگریس کے رہنما ششی تھرور بھی دھرنے میں آکربیٹھ گئے ہیں۔ دہلی کے مسلمانوں کی جانب سے سکھ کسانوں کے ساتھ عظیم الشان یکجہتی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کے رکن پارلیمنٹ جبیر سنگھ ڈمپا نے اعلان کیا ہے کہ سیاہ زرعی قوانین کے خاتمے تک وہ دھرنے میں موجود رہیں گے۔ سکھ کسانوں نے دہلی کے داخلی راستے بند کر دیئے جس سے شہری زندگی تقریباً مفلوج ہے۔ دہلی کی سرحد سنگھو کو دھرنے کا بڑا مرکز بنایا گیا ہے جہاں دھرنے کے باعث نیا شہر آباد ہو گیا ہے۔ یاد رہے پنجاب اور ہریانہ کے ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ پولیس میں سکھ اہلکاروں اور افسروں نے مظاہرین کے خلاف کار روائی سے انکار کر دیا ہے۔ کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے پنجاب کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس لکھمندر سنگھ نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور کہا ہے کہ میں پہلے کسان پھر پولیس آفیسر ہوں۔ بھارتی فوج میں شامل سکھ فوجیوں میں بے چینی کی خبریں ہیں۔ موجودہ صورتحال سے بوکھلا کر مودی سرکار نے سکھ مظاہرین پر خالصتانی ہونے اور پاکستان کی تائید و حمایت حاصل ہونے کا پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے۔کسان لیڈر گرونام سنگھ نے کہا ہے کہ مودی سرکار کے آگے نہیں جھکیں گے۔ حکومتی رکاوٹوں کے باوجودمختلف شہروں سے سکھوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ اس احتجاجی مظاہروں میں چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ہزاروں سکھوں کے درمیان مسلمانوں نے نماز جمعہ ادا کی ۔ ان کیلئے سکھوںنے جگہ کو صاف کیا ۔ نماز کے بعد مسلمانوں نے سکھ مظاہرین کیلئے بڑی تعداد میں دستر خوان بچھائے ۔ واضح رہے مسلمان سکھ یکجہتی بھی مودی سرکار کیلئے پریشانی کا باعث ہے لیکن کارپوریٹ سیکٹر کے ہاتھوں یرغمال مودی سرکار یہ قوانین ختم کرنے کی جرات نہیں رکھتی جو دراصل بھارت کی تباہی کی جانب سفر میں تیزی کا باعث ہے۔