تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن ، امام صحافت اور نظریہ پاکستان کے عظیم محافظ مجید نظامی مرحوم کی ساری زندگی اسلام، پاکستان اور نظریۂ پاکستان کے تحفظ کیلئے وقف کی تھی۔ پاکستان کے ساتھ انہیں والہانہ عشق تھا اور میں نے اپنی زندگی میں ان جیسا عظیم محب وطن کوئی اور نہیںدیکھا ہے۔ 16دسمبر 1971ء کو بھارت نے ننگی جارحیت کے ذریعے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کیا تو وہ دن محب وطن پاکستانیوں کیلئے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ احباب نے مجھے بتایا کہ ہم نے مجید نظامی کو 16 دسمبر کے دن جتنا رنجیدہ و سنجیدہ دیکھا اور کسی دن اتنا جذباتی نہیں پایا۔ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ مشرقی پاکستان دوبارہ ہمارا حصہ بن جائے یا کم از کم کوئی کنفیڈریشن کی کوئی صورت نکل آئے ۔ آپ نے مشرقی پاکستان میں محصور پاکستانیوں کو واپس لانے کا عَلم ہمیشہ بلند رکھا۔ بنگلہ دیش میں ان لوگوں کی مدد کیلئے باقاعدہ فنڈ قائم کر رکھا تھا،وہاں کے طلبہ کو پاکستان بلانے کیلئے ہمیشہ مطالبہ کرتے رہے۔ وہاں کی حکومت کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے بنگلہ دیش کے ساتھ ہر قیمت پر تعلقات بحال رکھنے کیلئے مجید نظامی ہمہ تن سرگرم و سرگرداں نظر آتے تھے۔ اپنی وفات سے چند ماہ قبل16دسمبر 2013ء کو نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایوان کارکنان تحریک پاکستان ، لاہور میں یوم سقوط ڈھاکہ کے موقع پر منعقدہ فکری نشست سے اپنے خطاب میں مجید نظامی نے کہا تھاکہ بنگلہ دیش انشاء اللہ ایک دن ضرور پاکستان کا حصہ بنے گا۔ہمارا جو حکمران بھی بھارت کے بارے میں سافٹ کارنر رکھے اس کو پاکستان پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے مزید کہا کہ آج ہم بنگلہ دیش کو یاد کررہے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں پاکستان کے حامی عبدالقادر ملاّ کو پھانسی دیدی گئی ہے جبکہ ان کے دیگر ساتھیوںکو بھی لپیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ان اقدامات سے حسینہ واجد صحیح معنوں میں شیخ مجیب کی بیٹی ثابت ہوئی ہے۔ میں شیخ مجیب،حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی سمیت متعدد اہم بنگالی رہنمائوں کو بہت اچھی طرح جانتا تھاجبکہ شیخ مجیب کے گھر بھی جا چکا ہوں۔ دو اخباری تنظیموں اے پی این ایس اور سی پی این ای کے اجلاس ڈھاکہ میں بھی ہوتے تھے لہٰذا میں اکثر وہاں جاتا رہتا تھا۔ 1965ء کی جنگ میں‘مَیں آغا شورش کشمیری مرحوم کے ساتھ کھیم کرن کے محاذ پر گیا اور وہاں بھارت کی طرف سے چھوڑ کر جانیوالے ایک ٹینک پر بیٹھ کر تصاویر بھی بنوائیں۔یہ تصویر ’’چٹان‘‘میں چھپی اور اس کے نیچے لکھا تھا’’مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام‘‘۔اس کا مطلب تھا کہ کھیم کرن بنگالی بھائیوں کی رجمنٹ نے فتح کیا تھا۔ تقریباً دو ماہ قبل بھارت سے آئے ہوئے ایک لالہ جی صحافی میرے دفتر آئے اور ازاراہ مذاق مجھ سے کہنے لگے کہ آپ اکثر ٹینک پر بیٹھ کر بھارت جانے کی بات کرتے ہیں تو کیا میں ایک ٹینک بھجوا دوں۔میں نے کہااس کی ضرورت نہیں‘ ہمارے پاس آپ کا ہی چھوڑا ہوا ایک ٹینک موجود ہے۔میں نے لالہ جی کو وہ تصویر دکھائی جو میرے دفترمیں لگی ہوئی ہے۔وہ تصویر دیکھ کر کہنے لگے کہ آپ بہت ظالم ہیں۔میں نے کہاسب سے بڑا ظالم بھارت ہے جس نے پاکستان کو آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا،اس نے پہلے پاکستان کو آدھا کر کے بنگلہ دیش بنوایا اور اب باقی پاکستان کے پیچھے بھی پڑا ہوا ہے۔بلوچستان میں پس پردہ وہ جو کچھ کررہا ہے،وہ بھی سب کو پتہ ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا ہمارا جو حکمران بھارت کے بارے میں سافٹ کارنر رکھے اس کو پاکستان پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔میں نے ہمیشہ بھارت کو ازلی دشمن قرار دیا ہے۔ جب بنگلہ دیش بنا تو اندرا گاندھی نے کہا کہ’’ ہم نے نظریۂ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے‘‘۔بنگالی ہمارے بھائی تھے اور یہ پاکستان کا ایک بڑا حصہ تھے۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ باقی پاکستان موجود ہے۔ہمیں یہ فکر ضرور ہے کہ یہ ایسا پاکستان نہیں ہے جیسااسے ہونا چاہئے تھا۔ ہم نے اقلیت میں ہونے کے باوجود یہاں ایک ہزار سال تک حکومت کی ہے۔غوری اور غزنوی گھوڑوں پر بیٹھ کر ٹک ٹک کرتے سومنات پہنچ جاتے تھے اور کسی کو انہیں روکنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔آج ہمیں جذبے اور ایمان کی ضرورت ہے اور ہم انشاء اللہ اسی طرح بھارت کے سینے پر مونگ دلتے رہیں گے۔ بنگلہ دیش انشاء اللہ ایک دن ضرور پاکستان کا حصہ بنے گا۔بنگلہ دیش بنانے میں مکتی باہنی جو دراصل ہندو فوجیوں کی جماعت تھی‘نے اہم کردار ادا کیا۔انہوں نے کہا جہاں تک ملاّ عبدالقادر کا تعلق ہے تو وہ شہید ہیں جنہوں نے پاکستان کیلئے جان دی اور پاکستان کیلئے جو بھی جان دے وہ ہماراہیرو ہے۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنی جواررحمت میں جگہ دے ۔ انہوںنے کہا بدقسمتی سے قیام پاکستان سے ایک سال بعد ہی قائداعظمؒ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے اگراللہ تعالیٰ انہیں پانچ دس سال مزید زندگی دیتا تو نہ بنگلہ دیش بنتا اور نہ ہی پاکستان اس طرح کا ہوتا جیسے آج ہے۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد مجید نظامی ہمیشہ افسردہ ہی نظر آتے اور اکثر اپنے خیالات کااظہار کرتے۔ 16دسمبر کازخم وہ کبھی بھول نہیں پائے۔ 15دسمبر 2012ء کو ایوان کارکنان تحریک پاکستان ، لاہور میں یوم سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے منعقدہ فکری نشست میں مجید نظامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ’’یہ نصف صدی کاقصہ ہے دوچاربرس کی بات نہیں‘‘۔ہم نے 1971ء میں آدھا پاکستان کھودیا۔آج بنگالی اپنا یوم آزادی جبکہ ہم یوم سوگ منارہے ہیں۔یہ ان کی اورہماری غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں سب سے زیادہ حصہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کا ہے جس نے مکتی باہنی تیار کی اورمغربی بنگال کے افراد کو فوج میں بھرتی کرکے اورانہیں تربیت فراہم کر کے بنگلہ دیش میں داخل کردیا ۔انہوں نے ہماری فوج کا مقابلہ کیا اوربالآخر جنرل نیازی کوسرنڈرکرناپڑا۔میں سمجھتا ہوں کہ سرنڈر کرنے سے بہتر تھا جنرل نیازی پستول سے اپنے آپ کو اڑالیتے۔ سقوط ڈھاکہ میں شیخ مجیب،ذوالفقارعلی بھٹو اورجنرل یحییٰ کا کردار سب سے نمایاں ہے۔جنرل یحییٰ کانام لینا بے کار ہے کیونکہ وہ شخص کسی وقت بھی اپنے ہوش وحواس میں نہیں ہوتا تھا۔صدرایوب جاتے ہوئے پاکستان کو جنرل یحییٰ کے سپردکر گئے۔ (جاری)
مجید نظامی اور 16دسمبر
Dec 17, 2020