میں نے مینار پاکستان پر تاریخ بیان کی: محمود اچکزئی
اسی مینار پاکستان پر ایک تاریخ اٹل بہاری واجپائی نے بھی بیان کی تھی جو گرچہ ہمارے دشمن ملک کا وزیراعظم تھا مگر بات سچی کر گیا۔ اس نے کہا تھا کہ ’’پاکستان ایک حقیقت ہے۔ ہمیں اسے دل سے تسلیم کر لینا چاہئے۔‘‘ یہ ایک سچ تھا جو بہت سے ہندوستانیوں اور ہندوستان کے لے پالکوں کو پسند نہیں آیا۔ ایک تاریخ خود مینار پاکستان ہے جہاں لاکھوں مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی کی زیرقیادت قیام پاکستان کی تحریک چلانے کا اعلان کیا اور سات برسوں میں اس خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ اب محمود اچکزئی نے جو تاریخ بیان کی ہے‘ وہ اپنی مخصوص متعصب عینک لگا کر انہوں نے پڑھی ہے۔ انہیں کانگریس کے پٹھوئوں کی تحریک پاکستان کی مخالفت اور پاکستان بننے پر ناکامی کا جو دکھ ہے‘ یہ یکطرفہ تاریخ اسی کا پردرد بیانیہ ہے۔ پنجاب نے ہر بار بیرونی حملہ آوروں کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ سکندر اعظم یونانی تھا۔ اس نے افغانستان فتح کیا اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی تو جہلم میں ایک پنجابی حکمران راجہ پورس نے اس کا بھرپور مقابلہ کیا۔پھر امیر تیمور اور نادر شاہ نے افغانستان کو کئی بار تاراج کیا۔ یہ بھی تاریخ ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ افغان برے ہیں۔ توپنجابیوںکو ذاتی پسند ناپسند کی وجہ سے کیوںبرا کہا جائے۔ اسی طرح اگر سکھوں نے اٹک کے پار پشاور قندھار تک کا علاقہ فتح کیا‘ وہاں حکومت کی تو کیا ہوا یہ بھی تاریخ ہے ناپسندہی سہی۔ جان بوجھ کر مرچ مصالحہ لگا کر زبانی چسکے کو تاریخ نہیں کہتے۔ بہتر ہے محبت کی میٹھی زبان بولی جائے۔ بھائی چارے کو فروغ دیا جائے جس کی اس وطن عزیز کو ضرورت ہے۔ اب خدا جانے وزیراعظم نے کس ترنگ میں آکر لوگوں کو ہسٹری آف پٹھانز پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔ ہمیں کسی اور تاریخ کو پڑھنے سے زیادہ اس وقت ہسٹری آف پاکستان پڑھنے اور اسے یاد رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ جس طرح لاکھوں افراد نے قربانیاں دیکر یہ وطن حاصل کیا‘ ہمیں اس میں رہنا ہے۔ اس کو مضبوط بنانا ہے۔ باقی تاریخیں ہم فارغ وقت میں بیٹھ کر کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں۔
٭٭……٭٭
لاہور جلسہ میں کم نفری لانے والے مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کی شامت آگئی
ایسا تو ہونا ہی چاہئے۔ لاہور کے ہر حلقے سے کامیاب ہونے والا مسلم لیگ (ن) کا ہر ممبر قومی اور صوبائی اسمبلی اگر دو دو ہزار کا جلوس لیکر دھمالیں ڈالتا جلسہ گاہ کی طرف آتا تو 40 ہزار کا مجمع بآسانی جمع ہوتا۔ باقی اردگرد سے آنے والے بھی انہی جتنے لوگ لاتے تو پھر بلے بلے ہو جاتی اور حکومت کے جو ساون کے اندھے وزیر مشیر اور ترجمان ہیں‘ ان کو چپ لگ جاتی اور دم سادھ لیتے۔ اب بھی جو جلسہ ہواخاصا بڑا تھا۔ اس پر حکومت مطمئن ہے کہ جتنا خوف تھا‘ اتنا بڑا تماشا نہ لگا۔ پی ڈی ایم خاص طورپر مسلم لیگ (ن) جو اس جلسے کی میزبان تھی۔ اس بات پر پریشان تو ہوگی کہ اتنا بڑا جلسہ کیوں نہ ہو سکا۔ وہ تمام ممبران اسمبلی کہاں رہ گئے تھے جو مسلم لیگی حکومت میں مال بنا بنا کر ارب پتی بن چکے ہیں۔ وہ اس جلسے پر فی کس کروڑ بھی نہ لگا سکے۔ بندے بھی نہ لا سکے۔ ان کی یہ کارکردگی واقعی قابل تعریف نہیں۔ اتنے بڑے جلسے کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے جان چھڑانے دمڑی بچانے والوں کی گوشمالی کا فیصلہ کیا ہے۔ کہاں گئے وہ سب جو لاہور کے مامے چاچے بنے ہوئے تھے۔ چند ایک صرف دو منٹ کیلئے سٹیج پر منہ دکھانے آئے مگر اصل صورتحال دیکھ کر مریم نواز نے بھی انہیں لفٹ نہیں کرائی۔ اب دیکھنا ہے یہ لوگ کونسی وضاحتیں کرکے جان بچاتے ہیں حالانکہ یہ واقعی قابل غور بات ہے کہ جلسہ لاہور کے شایان شان کیوں نہ تھا۔
٭٭……٭٭
کراچی: سڑک پر کچرا پھینکنے والا رکشہ سوار گرفتار
یہ ایک انہونی بات ہے۔ کاش ایسا برسوں پہلے ہو جاتا تو آج کراچی کی یہ حالت نہ ہوتی۔ ایوب خان کے شروع کے دنوں میں سڑکوں پر گندگی پھیلانے پر پابندی کا آرڈر آیا تو لوگوں نے جرمانے کے خوف سے اس پر بھرپور عملدرآمد کیا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ حکم بھی ہوا میں تحلیل ہوتا چلا گیا۔ پھر اس کے بعد کسی نے مڑ کر نہیں دیکھا اور سڑکوں پر کچرا پھینکنے کا کام جوشروع ہوا تو کیا کراچی‘ کیا لاہور‘ کیا کوئٹہ اور کیا پشاور‘ شہروں میں‘ دیہاتوں میں جا بجا گندگی کے ڈھیر منہ چڑانے لگے۔ لاہور کی حد تک تو شہبازشریف کے دور میں صفائی کا نظام قدرے بہتر ہوا مگر باقی شہروں کا خدا ہی حافظ رہا۔ کراچی بھی ان شہروں میں درجہ اول پر فائز ہے جہاں انسانوں کی طرف سے سڑکوں پر پھینکی گئی گندگی خود انسانوں کیلئے ناقابل برداشت ہو چکی ہے مگر کیا کریںصوبائی‘ مقامی اور شہری انتظامیہ کو صفائی کی پروانہیں۔ کبھی کبھار جھاڑو تھام کر مشینری لیکر نالوں اور سڑکوں کی صفائی کا فوٹو سیشن ہوتا ہے۔ اس کے بعد گندگی جہاں تھی‘ وہیں رہتی ہے۔ اب اس شہر میں اگر کسی رکشہ کی سواری کواس لئے پکڑا جاتا ہے کہ اس نے کچرا جو ظاہر ہے‘ ٹنوں کے حساب سے تو نہیں‘ معمولی سا ہی ہوگا کیوں سڑک پر پھینکا تو یہ واقعی تعجب کی بات ہے۔ کاش اس احساس ذمہ داری کا روک ٹوک کا عمل ملک بھر میں شروع ہو جائے تو کم از کم شہروں کو گندگی سے نجات مل سکتی ہے۔ ان کا حسن بحال ہو سکتا ہے۔ اب یہ سڑکوں پر کچرا پھینکنے سے روکنے کا کام جاری رہنا چاہئے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ سزا اور جرمانے سے لوگ بھی راہ راست پر آجائیں گے۔ یوں گھروں‘ دکانوں اور مارکیٹوں کا کچرا سڑکوں پر منہ چڑاتا نظر نہیں آئے گا۔
٭٭……٭٭