جی کو خوش کرنے والی خیالی دنیا 

مسلسل بیروز گاری کی وجہ سے مقدر ہوئی مفلسی کے ہاتھوں خون تھوکتے ہوئے مرنے کی مجھے ہرگز تمنا نہیں۔رزق کمانے کے لئے لکھتا ہوں اور صحافت کے پیشے میں عمر گنوادینے کے بعد بخوبی جان چکا ہوں کہ کونسے موضوعات پر لکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ہر برس کا 16دسمبر مگر پریشان کردیتا ہے۔آج سے پچاس سال قبل 1971میں جب یہ دن آیا تھا تو پاکستان سقوط ڈھاکہ کی وجہ سے دولخت ہوگیا تھا۔میٹرک کے بعد حال ہی میں کالج گئے میری نسل کے افراد کے لئے یہ بہت بڑا سانحہ تھا۔کم از کم میں اس کے بارے میں بوکھلائے ہوئے کئی برسوں تک سوچتا رہا۔بحیثیت قوم اگرچہ ہمیں سانحے بھلادینے کی عادت ہے۔ زندگی کو رواں رکھنے کے لئے غالباََ ایسا رویہ لازمی بھی ہے۔ وہ جنہیں صحافتی زبان میں زندہ قومیں کہا جاتا ہے خود پہ گزرے سانحات مگر فراموش نہیں کرتیں۔آج بھی ہر دوسرے یا تیسرے برس جرمنی میں کوئی ایسا ناول یا تحقیق پر مبنی کتاب چھپ جاتی ہے جو اس ملک کے باسیوں کو ہٹلر کے دور میں پھیلی وحشت کی وجوہات کے بارے میں سوچنے کو مجبور کردیتی ہے۔مقصد اس سوچ بچار کا خود کو نازی ازم جیسے رویوں سے آئندہ کے لئے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔حالیہ چند برسوں سے اگرچہ اس ملک میں قوم پرستی کا احیاء بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔اسے بنیاد بناتے ہوئے مسلمانوں اور دیگر تارکین وطن کو جرمنی میں روزگار کی خاطر آباد ہونے کی راہیں مسدود بنائی جارہی ہیں
ہمارے ہاں مگر ایک نہیں دو16دسمبر ہوئے ہیں۔ پہلے نے وطن عزیز کو دو لخت کیا اور دوسرے نے ہم سب کو یہ سوچنے کو مجبور کہ ہمارے دین کی خاطر لڑنے کے دعوے دار جنونیت میں سفاکی کی تمام حدود پار کرسکتے ہیں۔ان پر کڑی نگاہ رکھنا ہوگی۔یہ دونوں سانحات مگر وسیع تر بنیاد پر ہمارے ہاں بھرپور قومی بحث کا عنوان نہیں بنے۔شاید وہ کامل توجہ سے زیر بحث لائے جاتے تو کئی سوالات کے بارے میں ہمارے ذہن اب تک صاف ہوگئے ہوتے۔حکمران اشرافیہ کو مگر سوالات اٹھانے والے ذہن درکار نہیں۔رعایا سے وہ تقاضہ کرتی ہے کہ پروفیسر اعجاز اکرم جیسے صاحبان بصیرت کے تشکیل کردہ بیانیے کو سرجھکائے ہوئے تسلیم کرلیا جائے۔ایسے پروفیسروں کے مرتب کردہ بیانیے پر دیانت داری سے سوالات اٹھانے والے غدار بھی ٹھہرائے جاسکتے ہیںجنہیں ذہن سازی کے تعلیم سمیت دیگر ذرائع سے دور رکھنالازمی ہوجاتا ہے۔
1971کا 16دسمبر آنے سے کئی برس قبل ہی میرے گھر میں جو اخبارات ورسائل آتے تھے ان میں اکثر ایسے مضامین چھپے ہوتے جو پریشان ہوکر دہائی مچارہے ہوتے کہ سابقہ مشرقی پاکستان کہلاتے آج کے بنگلہ دیش میں تعلیمی نظام کاملاََ ہندواساتذہ کے کنٹرول میں جاچکا ہے۔وہ معصوم ذہنوں کو نظریہ پاکستان پر سوالات اٹھانے کو اکسارہے ہیں ۔ہمارے محلے کے تھڑوں پر اکثر بنگالیوں کا مذاق بھی اڑایا جاتا تھا۔انہیں نکما اور بزدل پکارا جاتا۔ مشرقی پاکستان میں اکثر شدید تر سیلاب بھی آیا کرتے تھے۔ ان کی زد میں آئے افراد کی مدد کے لئے میں اپنے والد کی ایما پر اکثر چندہ جمع کرنے والی ٹولیوں میں شامل ہوجاتا۔چندہ دینے کو آمادہ افراد بھی اکثر بنگالیوں کی مدد سے اکتائے ہوئے نظر آتے۔مختصراََ یوں کہہ لیں کہ وقت اس حادثے کی 1960کی دہائی ہی سے پرورش کرنا شروع ہوگیا تھاجو بالآخر 16دسمبر1971کے دن دھماکے کی صورت نمودار ہوا۔
منافقانہ بزدلی کا عادی ہونے کی وجہ سے میں شاید آج بھی سقوط ڈھاکہ کا ذکر نہ کرتا۔جمعرات کی صبح اٹھ کر لیکن اخبار میں چھپا اپنا کالم فیس بک پر پوسٹ کیا تو وہاں ایک خاتون لیکچر دیتی نظر آئیں۔پانچ منٹ تک پھیلی جو کلپ میں نے دیکھی وہ بہت مان سے بتارہی تھی کہ مشرقی پاکستان میں بسے بنگالیوں کا دل جیتنے کے لئے ریاست پاکستان نے وہاں کون کونسے میگاپراجیکٹ متعارف کروائے تھے۔وہ مگر احسان فراموش ثابت ہوئے۔ ہمارے ازلی دشمن کے اکسانے پر ہم سے جدا ہوگئے۔
یہ کلپ دیکھتے ہی میرے جھکی ذہن میں فوراََ اپنے سکول اور کالج کی یاد آگئی۔یہ دونوں عمارتیں برطانوی سامراج کی سرپرستی میں تعمیر ہوئی تھیں۔لاہور کے ہائی کورٹ اور جی پی او کی عمارتیں بھی ذہن میں گھوم گئیں۔ اس کے علاوہ وہ نہری نظام بھی یاد آیا جس کی وجہ سے فیصل آباد جیسے شہر آباد ہوئے۔کلکتہ کو پشاور سے ملانے والی ریلوے لائن کا تذکرہ بھی اپنی جگہ ضروری ہے۔
مذکورہ بالا میگاپراجیکٹس کو فخر سے اجاگر کرتے ہوئے فرض کریں اگر کوئی گورا نسل پرست ہمیں احسان فراموش پکارنا شروع ہوجائے تو یقینا ہم اس کے بابت چراغ پا محسوس کریں گے۔مشرقی پاکستان کو میگا پراجیکٹس کی خیرات کے ڈھول بچاتی وڈیو بنانے والوں کو یاد ہی نہیں تھا کہ بنگال وسیع تر انڈیا کا خوشحال ترین صوبہ ہواکرتاتھا۔وہاں ہر برس دو کے بجائے تین بار فصلیں بوئی اور کاٹی جاتی تھیں۔اس کے علاوہ سوتی کپڑے کی نفیس ترین اقسام بھی فقط بنگال ہی میں تیار ہوتی تھیں۔مغلطیہ سلطنت کو سب سے زیادہ مالیہ فراہم کرنے والا صوبہ بھی بنگال ہی تھا۔اسی باعث وہاں کی گورنری کے حصول کے لئے مغل اشرافیہ کے مابین شدید چپقلش جاری رہتی۔ بنگال کی خوش حالی کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی نے سب سے پہلے اس صوبے میں اپنا اجارہ قائم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔مسلمان کاشتکاروں اور ہنرمندوں کو وحشیانہ استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ مارواڑ سے آئے ہندوساہو کاروں نے اس ضمن میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا بھرپور ساتھ دیا۔
مسلمان کاشت کاروں اور ہنر مندوں پر کلکتہ میں بیٹھے انگریزوں اور ہندوساہو کاروں نے جو ظلم روارکھے ان سے اکتاکر ہی بالآخر آل انڈیا مسلم لیگ نامی جماعت کے قیام کا باقاعدہ اعلان سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں 1906کے دسمبرکی 30تاریخ کو ہوا تھا۔ اس جماعت نے بالآخر قیام پاکستان کو یقینی بنایا۔لاہور میں قرار داد پاکستان فقط ایک اجتماع میں منظور ہوئی تھی۔ مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا آئینی انداز میں مطالبہ مگرسب سے پہلے بنگال کی منتخب اسمبلی نے کیا تھا۔اس کے بعد اسی مطالبے کو 1942میں سندھ اسمبلی نے دہرایا۔قیام پاکستان سے فقط ایک برس قبل جبکہ پنجاب میں حکومت یونینسٹ پارٹی ہی چلاتی رہی۔اس حقیقت کے با وجود مجھ ایسے کئی پنجابی خود کو پاکستان اور اس کے نظریہ کے مامے ثابت کرنے کو ہمیشہ بضد رہتے ہیں۔تاریخی حقائق کو جاہلانہ رعونت سے نظرانداز کرتے ہوئے جی کو خوش کرنے والی خیالی دنیا میں رہنا کوئی ہم سے سیکھے۔

ای پیپر دی نیشن