انتخابات بذریعہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین

Dec 17, 2021

ہمارے جیسے معاشرے میں الیکشن کے فلسفہ کو سمجھے بغیر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، اس کے لیے ایسے الفاظ، پڑھے لکھے لوگ بلا سوچے سمجھے استعمال کرتے ہیں کہ ہنسی آتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں اردو کے چار الفاظ تو لگتا ہے کہ الیکشن کے لیے ہی ایجاد ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ الیکشنز شفاف، منصفانہ، آزادانہ، اور غیر جانبدارانہ ہونے چاہئیں۔ یہ چار الفاظ پوری دنیا میں کسی ایک ملک کے الیکشن پر بھی منطبق نہیں ہوتے۔ دنیا کا ہر الیکشن متنازعہ ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ امریکی صدارتی الیکشن میں ہار کے بعد تو اب یہ روایت بھی کہ ہارنے والا اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے جیتنے والے کو مبارک باد پیش کرتا ہے، دم توڑ چکی ہے۔ ٹرمپ نے ابھی تک الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا بلکہ انہیں مکمل دھوکا اور دھاندلی زدہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح کا الزام اس سے گزشتہ الیکشن میں ہیری کلنٹن نے ٹرمپ کی جیت کے بعد لگایا تھا کہ بدترین دھاندلی ہوئی تھی۔ وہ آج بھی کہتی ہیں کہ امریکی ڈیپ سٹیٹ یا وہ فیصلہ ساز قوتیں جو بظاہر دکھائی نہیں دیتیں لیکن عوام کے فیصلہ کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، کو الیکشن میں دھاندلی کا ذمہ دار ٹھہرا یا تھا۔ جب امریکہ جیسے ملک میں جو جمہوری ملکوں کے باپ کا درجہ رکھتا ہے، میں بھی الیکشن اپنی افادیت اور شفافیت کھو چکے ہوں اور یہ عمل مشکوک قرار دیا جارہا ہو تو باقی دنیا اور خصوصاً ہمارے جیسے ترقی پذیر جمہوری ملکوں میں تو پھر ستّے خیراں۔
بات دور نکل گئی لیکن ایسی مثال دینے کا مقصد یہ ہے کہ انتخابات نقائص سے پاک نہیں ہوسکتے۔ وجہ صاف ہے۔ کسی بھی ملک میں الیکشن وہ واحد سرگرمی ہے جس میں ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسان حصہ لیتے ہیں تو ایسی سرگرمی کیسے شفاف اور منصفانہ ہوسکتی ہے؟ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر جان بچانے والی ادویات تک اگر صاف اور شفاف نہیں ہوں ہو سکتیں یا مختلف دفاتر کے دیگر امور منصفانہ اور غیر جانبدارانہ نہیں ہوتے تو اکیلے الیکشن ہی ان سب خوبیوں کے مالک کیونکر ہوں؟ عقل نہیں مانتی۔ میرے نزدیک الیکشن کے لیے بنیادی شرط اس کا روبہ عمل ہونا اور اس پر عوام اور سیاسی قوتوں کا ’اعتماد‘ ہے یعنی لوگوں کا سیاسی عمل پہ اعتماد اور بھروسا الیکشن کو طاقت اور جواز فراہم کرتا ہے۔ ایک ایسا عمل خواہ وہ شفافیت کے اعلیٰ معیار کو ہی کیوں نہ چھوتا ہو، اگر عوام کی تائید اور بھروسا حاصل نہیں کرتا وہ بے کار ہے۔ چونکہ انتخابات کا عمل ہے ہی اس لیے کہ عوام میں انتشار اور فساد برپا نہ ہو اور پُر امن طریقہ سے اقتدار عوام کے نمائندوں کو منتقل ہوجائے لیکن اگر الیکشن پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے تو پھر امن کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور معاملہ کشت وخون تک جاسکتا ہے اور اگر ایسی بدامنی ہوجائے تو پھر انتخابات کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ گویا یاد رہے کہ انتخابات کی اصل روح عوام کا اس پر بھر پوراعتماد اور بھروسا ہے۔
اس کی ایک مثال سن 2000ء میں امریکی صدارتی الیکشن کی ہے جب ڈیمو کریٹک امیدوار البرٹ الگور اور ریپبلکن پارٹی کے امیدوار جارج واکر بش کے درمیان مقابلہ انچاس امریکی ریاستوں میں برابر برابر جارہا تھا۔ اب جو امیدوار بھی فلوریڈا ریاست کے پچیس الیکٹرول ووٹ حاصل کرلیتا وہ امریکی صدر منتخب ہوجاتا۔ پام بیچ کاؤنٹی کی مشینیں عجب تماشا کررہی تھیں، ایگزٹ پولز الگور کو کامیاب قرار دے رہے تھے جبکہ مشینیں گنتی میں گڑ بڑ کرکے جارج واکر بش کے ووٹ زیادہ بتاتی تھیں۔ فلوریڈا کا گورنر جیب بش، ری پبلکن صدارتی امیدوار جارج واکر بش کا سگا بھائی تھا، مزید شک پیدا ہوا کہ مشینوں کو جان بوجھ کر خراب کیا گیا ہے اسی لیے ٹوٹل کرتے ہوئے غلط ووٹ بتارہی ہیں۔ فلوریڈا کی سیکرٹری آف سٹیٹ اور پھر فلوریڈا کی ہی سب سے بڑی عدالت نے الگور کے حق میں فیصلہ دیا کہ مشینیں غلط گنتی کررہی تھیں اور جب مشینیں کھول کر ووٹ نکال کر ہاتھوں سے گنے گئے تو الگور کے ووٹ جارج بش کے ووٹوں سے کہیں زیادہ نکلے، چناچہ ڈیمو کریٹک امیدوار الگور کی جیت کا اعلان کردیا گیا۔ جارج واکر بش کے حامی یہ معاملہ امریکہ کی سپریم کورٹ میں لے گئے جس نے اپنے تاریخی مقدمہ’ گور بمقابلہ جارج بش‘ میں فیصلہ سنایا کہ اس بات سے قطع نظر کہ مشینیں غلط گنتی کررہی تھیں لیکن انہیں کی گنتی کو مانا جائے گا اور دوبارہ ہاتھ سے ووٹ نہیں گنے جائیں گے۔ اور ہاتھوں سے ووٹوں کی گنتی کو غیر آئینی قرار دے کر جارج بش کی کامیابی کا اعلان کردیا۔ بات اس لیے درست تھی کہ پورے امریکہ میں کئی کروڑ مشینیں کام کررہی تھیں اور باقی کسی جگہ مشینوں کو کھول کر ہاتھ سے ووٹ نہیں گنے گئے تھے، اور نہ ہی ایسا کرنا ممکن تھا۔ ایسا کرنے کے لیے کئی ماہ درکار تھے جبکہ 20 جنوری کو صدر نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانا ہوتا ہے۔ (جاری)

مزیدخبریں