سوال و جواب کی الجھن 

 سوال زندگی اور علم دونوں کی بنیاد ہے ۔ہر تحقیق کسی سوال سے شروع ہوتی ہے اور جواب کی صورت پھیلتی چلی جاتی ہے ۔تحقیقی سوالات میں سقراط کا انداز تعلیم، ذہانت وتخلیق کی چابی مانا جاتا ہے۔اس میں بیانیہ ، متعلقہ اور عمومی سوال شامل ہیں۔ علم حاصل کرنے کیلئے ’کیا‘ کا سوال اٹھایا جاتا ہے۔پھر اطلاق کیلئے کیسے؟ تجزیئے کیلئے کونسے؟ نتیجے کیلئے کیوں کر؟ کے سوالات زندگی کا لا متناہی فلسفہ ہے۔ہم تو فلسفی بھی نہیں پھر بھی ڈور سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سوالات کی کنجی سے کوئی تالا نہیں کھلتا کیونکہ عوام اور حکمران تو ایک طرف ۔حکومتی ایوان بھی کسی مسئلے پر متفق نظر نہیں آتے گویا۔۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔
ارسطو کا کہنا ہے کہ ہم اچھائی سے زیادہ اچھے انسان کے خوگر ہوتے ہیں، وگرنہ ہمارے تمام سوالات بے معنی ہوتے ہیں۔ انسان کی دانشورانہ تاریخ میں نیکی وصداقت اوردنیا کو خوبصورت اور مساواتی نظام کی تگ و دو بنانے کیلئے آفاقی سوالات کی جستجو ہمارے سوالیہ ذہن کی مرہون منت ہے۔ نامعلوم سے معلوم کا سفر سوال سے شروع ہو کر سوال پر ہی اختتام پذیر ہوتا ہے۔
انسانی تاریخ فلسفہ و مذہب اورسائنس و ادب کے عظیم سوالا ت سے ہی تعبیر ہے، جن کے جوابات سے آج ہم ڈیجیٹل دور میں باشعور زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کائنات کی نا تمامی اور صدائے دما دم کن فیکون اسی لیے جاری و ساری ہے کہ سوال و جواب باقی ہیں ۔کئی بار جن رویوں اور رسوم کو عمومی سمجھ کر بحث سے اجتباب کیا جاتا ہے .وقت گزرنے کے بعد وہ ایک سنگین سوال کی صورت ابھرتے ہیں۔ اگرچہ یہ سوالات اجتماعی معاشرت کی طرف سے ہیں تاہم انکے جوابات انفرادی قربانی مانگتے ہیں جن کے لاشے ہر لمحہ کبھی خبر اور سوشل میڈیا پر popular Now کی صورت جگماتے ہیں اور کئی گھر اور بہت سے دل تاریک کر جاتے ہیں۔ کچھ ایسے سوالات بھی ہیں جن کی تکرار ان کی اہمیت ہی ختم کر دیتی ہے اور جواب کی حاجت ہی نہیں رہتی ۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں 
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں 
ہمارے ہاں عدالتی نظام کے تحت ایسے سوال زندگیاں ختم ہونے پر بھی جاری رہتے ہیں اور آئی.ایم .ایف کے قرض کی طرح انکے جواب اگلی کئی نسلوں پر فرض کیے جاتے ہیں۔کئی سوالات کے جوابات میل ہی نہیں کھاتے مستقبل میں شاید ان کیلئے بھی ڈی این اے ٹیسٹ کی ضرورت پڑے . ہم تو وہ قوم ہیں جن کی آزادی ابھی تک سوال ہیں ہمارا زاد راہ سوالات کے تالے ہیں جن کی چابیاں نجانے کہاں دفن ہیں ۔ آئین و قانون سوالات کا بپھرا ہوا دریا ہے جس کے سامنے جتنی بھی کمیٹیاں بنائی ٹک ٹاکر بن کر رہ جاتی ہیں . سوال گندم جواب چنا۔سوال حد سے زیادہ انارکی پر ہے اور جواب لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ہے .سوال حالیہ کرپشن کی دفاعی حکمت عملی پر کیا جائے تو جواب چوروں کو نہیں چھوڑیں گے ۔ سوال معاشرہ میں بڑھتی بے اطمینانی کا ہے اور جواب میں وزیراعظم کی ایمان داری کے قصے سنائے جاتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کیسے کی جائے اور جواب میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ چینی صحت کیلئے مضر ہے ۔ عوام کا سوال مہنگائی کا بے قابو جن پر ہے اور جواب میں اسے روٹی کم کھانے کی غیرت دلائی جاتی ہے .سوال مسئلہ کشمیر پر ہوتا ہے اور جواب میں کھانے کی میز پر گالیاں ۔
سوال کر کے میں خود ہی بہت پشیماں ہوں 
جواب دے کے مجھے اور شرمسار نہ کر 
 ٹی.وی پروگرامز خاص طور پر tubers you کے سوال اس قدر بیہودہ اور لغو ہوتے ہیں .مذہب سے متعلق سراسر مغالطے اور غلط فہمی پر مبنی سوال میں حلال حرام کا الگ سوال اٹھتا ہے۔ کچھ سوالات بذات خود فتوی بن جاتے ہیں جن کے جواب سے پہلے ہی فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔حالانکہ حکم، امر یا اختیار صرف اولی الامر کیلئے مخصوص ہے ۔کچھ سوال بھکاری کے خالی کاسہ کی طرح در در بھٹکتے ہیں اور کچھ سوالات کی تلاش میں کمیٹیاں بٹھائی جاتی ہیں لیکن یہ شرارتی بچے۔ دسمبر کی چھٹیاں ملکی تاریخ میں اتنا بڑا مسئلہ نہیں بنیں جتنا کمیٹی در کمیٹی نے بنا دیا آخر عدالت کو حکومت سے ہی جواب طلب کرنا پڑا . جانے جواب میں کیا داستان سنائی جائے .پہلے ہی ہمارے پاس کتنے ہی سوالات فائلوں کی صورت سرخ فیتے سے لپٹے ہیں .کرشن چندر کے ’’جامن کا پیڑ ‘‘ اور عکس مفتی کی سیڑھی کی طرح یہ سوال ادھر سے ادھر ٹرانسفر ہوتے رہیں گے .ان کیلئے کتابیں لکھی جائیں گی۔ ان پر پروگرام منعقد ہونگے۔جلسے ، سیمینار۔ کانفرسز لیکن ان کے جواب نہیں کھلیں گے .لیاقت علی سے اے پی ایس کے جواب صرف ملی نغمے ہیں۔ہر سانحہ کا جواب خزانے پر بیٹھا سانپ ہی جانتا ہے ہمارے لیے سوال کا اطمینان ہی خزانہ ہے ۔ 
وزیراعظم صاحب ہر پاکستانی کے ہاتھ میں آپ کے وعدوں سے متعلق کچھ سوال ہیں .ملک میں بے یقینی بد اعتمادی ناچ رہی ہے اور آپ مغربی معاشرتکے impact کی فکر ہے .ویسے کیا آپ کا سوال کرنا بنتا ہے ؟ کیا آپ عوام کے سامنے جوابدہ نہیں۔

ای پیپر دی نیشن