پاکستان کے خود ساختہ مانچسٹر فیصل آباد سے ایک رپورٹ الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہوئی۔ اس رپورٹ میں ایک بیوہ عورت کا گھر دکھایا گیا جس میں وہ اپنی جوان بیٹیوں کے ساتھ ایک ایسے گھر میں رہ رہی ہے جس کی چوڑائی صرف اور صرف 4 فٹ تھی اور اس میں چارپائی بھی نہیں رکھی جا سکتی تھی۔ اس گھر کی لمبائی 25 فٹ اس گھر میں دیوار کے ساتھ چھ انچ کی سیڑھی تھی جو کہ دیوار میں اینٹیں باہر نکال کر بنائی گئی ہے اور اس پر چڑھنا بھی خاصا مشکل کام تھا۔ یہ گھر بھائیوں کے درمیان تقسیم کی بنیاد پر اس بیوہ کے حصے میں آیا اور قبر نما اس گھر میں وہ سر چھپائے رہ رہی تھی جبکہ اس کا کوئی ذریعہ آمدن بھی نہیں۔ اسی شہر فیصل آباد میں ایسے ایسے محل بھی بن رہے ہیں جو سو سو کنال اراضی پر مشتمل ہیں اور یہ ہیں بھی بلدیہ کی حدود میں، اسی قسم کے ایک گھر میںباتھ روم کیلئے ساڑھے سات لاکھ روپے فی ٹونٹی کے حساب سے 11 ٹونٹیاں 82 لاکھ 50 ہزار روپے میں باہر سے منگوا کر لگائی گئی ہیں اس ٹونٹی کی پانی گزرنے والی نالی اتنی باریک ہے کہ اس میں سے پانی گزارنے کے لئے ہر ٹونٹی کے ساتھ پریشر پمپ بھی لگانا پڑتا ہے ۔یہ محل ایک صنعت کار کی بیگم صاحبہ بنوا رہی ہیں اور باخبر ذرائع کے مطابق اس محل نما گھر پر اب تک 6 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اس کی تعمیر میں پاکستانی اور کچھ غیر ملکی ماہرین تعمیرات کی مشاورت بھی شامل ہے انہی ذرائع کے مطابق اس کی تزئین و آرائش اور لینڈ سکیپنگ کے اخراجات اس کے علاوہ ہوں گے ۔
بتایا گیا ہے کہ فیصل آباد کی چند بیگمات کے درمیان مقابلہ جاری ہے ۔ ان بیگمات نے باقاعدہ معاوضے پر مخبر رکھے ہوئے ہیں جو باقاعدہ مخبری کرتے ہیں کہ کس محل میں کس قسم کی تزئین و آرائش ہو رہی ہے۔ اس قسم کے ایک گھر میں ساگوان کی جو لکڑی استعمال ہو رہی ہے ، وہاں اب تک 40 فٹ لمبے نئے سات کنٹینر ساگوان کی لکڑی کے لائے جا چکے ہیں۔ چند سال قبل کراچی میں بھی ایک ریٹائرڈ آفیسر کے گھر پر کئی کنٹینر ساگوان کی لکڑی کے لگے حتی کہ اس کے باتھ رومز کے روشندان بھی ساگوان کے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس گھر کو بنانے والے صاحب ایک دن بھی اس گھر کے مکین نہ بن سکے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ایک یورپی ملک میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اس گھر میں لکڑی کا کام کرنے والے ایک کاریگر نے اس کالم نگار کو بتایا کہ گھر میں داخل ہوتے ہی ہر طرف ساگوان کی لکڑی کی خوشبو مہک رہی ہوتی ہے حتی کہ تمام تر فرنیچر بھی ساگوان ہی سے تیار کیا گیا ہے۔
فیصل آباد کے گھروں کے حوالے سے ایک محفل میں بات ہو رہی تھی تو ایک صاحب معلومات نے بتایا کہ لاہور میں بننے والا ایک صاحب ذوق ریٹائرڈ آفیسر کا گھر بھی دیکھنے کے قابل ہے اور اس کے ڈرائینگ روم کی دو پینٹگزسوا تین کروڑ کی ہیں۔ میرے لئے یہ تسلیم کرنا ہی ممکن نہیں کہ صرف دو پینٹنگز سوا تین کروڑ کی ہوکیسے سکتی ہیں۔ میں نے اس بات کو یکسر مسترد کردیا تو مجھے یہ طعنہ سننے کو ملا کہ میاں غفار لگتا ہے کہ آپ کو آرٹ اور فن سے نہ کوئی دلچسپی سے اور نہ ہی معلومات مگر اس طعنے کے باوجود میں نہیں مانتا کہ سوا تین کروڑ روپے کی صرف دو پینٹنگز ۔
ملتان میںاسی قسم کا ایک گھر گزشتہ کئی سال سے بن رہا ہے۔ معلومات رکھنے والوں کے مطابق ڈیڑھ ایکڑ یعنی 12 کنال کے اس محل پر اب تک پونے دو ارب خرچ ہو چکے ہیں مگر کام جاری ہے۔ واقفان حال کے مطابق اس گھر کو خریدنے کیلئے اچانک اہم ہونے والی ایک شخصیت نے گزشتہ سال دلچسپی ظاہر کی مگر سودا نہیں بنا ۔ اس قسم کے ایک گھر کے کچن میں جرمنی کا بنا ہوا 22 لاکھ روپے کا چولہا لگایا گیا ہے۔ جرمنی کی ایک کمپنی نے فیصل آباد کے ایک گھر میں جھیل اور سوئمنگ پول کیلئے صرف واٹر سسٹم 5 کروڑ روپے میں دیا جبکہ تعمیراتی میٹریل شامل نہیں ۔ اس طرز کے گھروں کے باتھ رومز میں نصب ہونے والے نہانے کے شاور 3 فٹ مربع کے ہیں اور ایک شاور کی قیمت 3 سے 4 لاکھ روپے ہے جبکہ یہ شاور ایک منٹ میں 300 سے 500 لٹر پانی ایک ایسے ملک میں ضائع کر دیتا ہے جہاں پانی کی شدید قلت ہے اور عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق جو ملک خطرناک زون میں جا رہا ہے وہاں اس طرح پانی کا زیاں اب معمول کی بات ہے ۔
پاکستان میں متعدد ایسے گھر ہیں جن میں سینما گھر اور تھیٹر بنانا تو عام سی بات ہوچکی ہے۔ میں نے سینیٹری کا کاروبار کرنے والے ایک دوست سے ساڑھے سات لاکھ روپے کی ٹونٹی کا کہا تو کہنے لگا کہ بھائی جرمنی کی ایک کمپنی کی ٹونٹی 15 لاکھ روپے کی بھی ہے اور اس کمپنی کا کموڈ 4 سے 6 لاکھ روپے کا ہے جس میں گرم اور ٹھنڈے پانی کے علاوہ جسم کو خشک کرنے کیلئے گرم ہوا کا انتظام بھی شامل ہے۔ بعض گھروں میں مستقل بنیادوں پر بیوٹی پارلر کشیدہ کاری اور ٹیلر ماسٹر کے شورومز بنائے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب سیٹھ پیسہ بنانے میں جت گئے ہیں جبکہ ان کی بیگمات ایک دوسرے کے مقابلے میںدولت اڑا رہی ہیں۔ اب تو صورتحال یوں ہے کہ بکر منڈی سے قربانی کے بکروں کی خریداری بھی خواتین نے اپنے ذمے لے رکھی ہے اور وہ گاڑی میں بیٹھی ہی ہدایات دیتی ہیں کہ فلاں جانور خوبصورت ہے خرید لیں۔ اس پر ایک خاں صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیٹھوں کی بیگمات اپنے بیمار اور بے ڈھنگے شوہروں کو تو خوبصورت بنا نہیں سکتیں‘ لہٰذا خوبصورت بکروں کی قربانی پر ہی اپنا رانجھا راضی کر لیتی ہیں۔ ایک بیگم صاحبہ کا گھر گزشتہ چار سال سے مسلسل بن رہا ہے اور وہ اس کے ڈیزائن میں اتنی بار تبدیلی کروا چکی ہیں کہ اس گھر کا آرکیٹکٹ خوفزدہ ہے کہ وہ اس سٹریکچر کی مضبوطی کیسے قائم رکھی جا ئے ۔
واہ میرے اللہ‘ ایک طرف چھت کو ترستے لاکھوں کروڑوں لوگ اور دوسری طرف ایسی خواتین جو چند گھنٹوں میں کپڑوں کی پوری دکان اور سارے تھان کھلوا کر دو سوٹ منتخب نہیں کر سکتیں، اب اربوں روپے کے گھروں کی ڈیزائننگ کروا رہی ہیں۔ مجھے ایک دولت کی فراوانی والے دوست کا تاریخی جملہ یاد آ رہا ہے۔ ’’میں نے تو اپنی بیوی کو کھلے پیسے دے رکھے ہیں کہ وہ شاپنگ کرتی رہے‘ زیورات بنوائے‘ تڑوائے مگر مجھ سے ’’ٹلی‘‘ ہی رہے۔
کہتے ہیں کہ حضرت نوح ؑ کی عمر 950 سال تھی اور انہوں نے ساری زندگی ایک جھونپڑی میں گزار دی۔ایک دن انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگوں کی عمریں 70 سے 80 ہوں گی جس پر ان کی اہلیہ نے کہا پھر تو وہ ہماری طرح جھونپڑی بھی نہیں بنا پائیں گے تو حضرت نوح ؑ نے کہا کہ ان کے گھر اتنے عالیشان ہوں گے کہ صدیوں تک باقی رہیں گے مگر وہ خود دنیا سے چلے جائیں گے ۔اب گھروں پر بھاری اخراجات اور ان کی تزئین و آرائش دیکھ کر لگتا ہے کہ فانی دنیا کے مکیں خود کو لافانی سمجھنے لگ گئے ہیں ۔
فانی دنیا کے ’لافانی ‘ مکین
Dec 17, 2021